جرمنی کا ایمج، تارکین وطن کی نگاہ میں
7 ستمبر 2018مکانات کے اونچے کرائے، کنڈر گارٹن يا نرسری اسکولوں ميں کم جگہيں اور روز مرہ زندگی ميں بڑھتے ہوئے اخراجات عموماً جرمن شہريوں کے ليے سب سے بڑے چيلنجز ہيں۔ گو کہ جرمنی ميں مقيم تارکين وطن کو بھی ان مسائل کا سامنا رہتا ہے ليکن يہ ان کے ليے غالباً سب سے بڑے چيلنجز نہيں۔ تارکين وطن کے ليے جرمن شہريوں کا غیر دوستانہ اور سرد مہری پر مبنی رويہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ يہ انکشاف ’انٹر نيشنز‘ نامی آن لائن پليٹ فارم کے ايک حاليہ سروے کے نتائج کی بنياد پر کيا گيا ہے۔
يہ پہلا موقع نہيں کہ جرمن شہريوں کی جانب سے غير ملکيوں کی طرف دوستانہ رويہ نہ رکھنے کا موضوع زیر بحث آیا ہے تاہم اس میں تازہ ترین یہ ہے کہ اعداد و شمار کے اعتبار سے جرمنی کی ريٹنگ مسلسل خراب ہوتی جا رہی ہے۔ سروے ميں شامل اڑسٹھ ممالک کی فہرست ميں جرمنی اب چھتيسويں نمبر پر ہے۔ چار سال قبل جرمنی بارہويں نمبر پر تھا۔
اس اسٹڈی ميں شريک چھپن فيصد تارکين وطن کے بقول جرمن شہريوں کے ساتھ دوستی کرنا مشکل عمل ہے۔ عالمی سطح پر اگر ديکھا جائے تو اپنے ملک کو چھوڑ کر ديگر ممالک ميں رہائش اختيار کرنے والے چھتيس فيصد افراد کا کہنا ہے کہ انہيں نئے ممالک کے شہريوں کے ساتھ دوستی کرنے ميں مشکل پيش آتی ہے۔ ’انٹر نيشنز‘ کے شريک بانی مالٹے ذيسک کے مطابق مہاجرت سے متعلق بحث نے اس مسئلے کو مزيد بگاڑا ہے۔
يہ امر اہم ہے کہ تارکين وطن جرمنی کو ملازمت اور کاروبار کے حوالے سے ايک موزوں ملک قرار ديتے ہيں۔ جرمن اقتصاديات مستحکم ہيں، ملازمتيں کثير اور امن عامہ کا نظام اعلٰی معيار کا۔ جرمن دارالحکومت برلن ميں قائم اقتصادی ريسرچ انسٹيٹيوٹ کے سربراہ مارسيل فراٹسچر کے مطابق پچھلے دس برسوں کے دوران يورپی يونين کے ممالک سے تعلق رکھنے والے سالانہ تين لاکھ افراد ملازمتوں کی غرض سے جرمنی آتے جاتے رہے ہيں۔ ان کے بقول اس کی وجہ جرمنی ميں اچھی ملازمتوں کے مواقع ہے اور يہ صورتحال مستقبل قريب ميں تبديل ہونے والی بھی نہيں۔
يہاں يہ امر بھی اہم ہے کہ ہجرت جرمن اقتصاديات کے ليے ناگزير ہے۔ جرمنی ميں تربيت يافتہ ملازمين کی قلت ہے۔ اقتصادی ريسرچ انسٹيٹيوٹ کے سربراہ مارسيل فراٹسچر کے مطابق جرمنی کو مہاجرين سے متعلق اپنا رويہ تبديل کرنا ہو گا۔ انہوں نے مزيد کہا، ’’اگر پچھلے پندرہ برسوں ميں ديگر يورپی رياستوں سے چند ملين افراد جرمنی نہ آتے، تو اس ملک ميں اقتصادی ترقی نہيں ہو پاتی۔
رواں سال کيے گئے اس سروے کے مطابق تارکين وطن کے ليے بحرين سب سے بہترين ملک ثابت ہوا۔ اس ملک ميں تارکين وطن کو خوش آمديد بھی کيا جاتا ہے اور وہاں ملازمت کے مواقع بھی کافی ہيں۔ سروے کے ليے 187 ممالک کے اٹھارہ ہزار سے زائد تارکين وطن سے ان کی رائے لی گئی تھی۔