جرمنی کا ایک گاؤں ایک لاکھ چالیس ہزار یورو میں فروخت
9 دسمبر 2017وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے محض پچھتر میل دوری پر واقع سابقہ مشرقی جرمنی کے الوینے نامی گاؤں کی آبادی محض بیس نفوس پر مشتمل ہے۔ مشرقی اور مغربی جرمنی کے اتحاد کے ستائیس برس بعد اب بھی ملک کے مشرقی حصے کی معاشی صورت حال کافی خراب ہے۔
نازی مسلمانوں کو ساتھ ملانے میں کیسے کامیاب ہوئے تھے؟
اس نیلامی میں گاؤں کا مکمل سولہ ہزار مربع میٹر کا علاقہ جس میں بارہ رہائشی عمارتیں اور کچھ گیراج شامل ہیں، برائے فروخت رکھا گیا تھا۔ بولی لگانے کے لیے ابتدائی رقم سوا لاکھ یورو رکھی گئی تھی۔ نیلامی کرنے والی کمپنی کے مطابق صرف ایک ہی گمنام خریدار نے ٹیلی فون کے ذریعے بولی میں حصہ لیا اور الوینے کو ایک لاکھ چالیس ہزار یورو میں خرید لیا۔
سترہ برس قبل بھی اس گاؤں کو فروخت کیا گیا تھا، تب اسے برلن کے رہائشی دو بھائیوں کی ’ایک ڈوئچ مارک‘ کی علامتی رقم کے عوض خریدا تھا۔ لیکن الوینے گاؤں کی خستہ صورت حال میں کچھ بہتری نہیں آ پائی۔
گاؤں کے کل بیس معمر مکین بے صبری سے اس بولی کا انتظار کر رہے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ خدشہ بھی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ نیا خریدار گاؤں میں ایسی تبدیلیاں لے آئے، جن کے باعث یہاں ان کا رہنا ناممکن ہو جائے۔
مشرقی اور مغربی جرمنی کے اتحاد کے وقت سن 1990 میں یہاں پچاس افراد رہائش پذیر تھے۔ اس وقت یہ گاؤں قریب ہی واقعہ ایک فیکٹری کی ملکیت تھا۔ پھر فیکٹری بند ہو گئی اور یہ مکین بھی یہاں سے آہستہ آہستہ رخصت ہو گئے۔