جرمنی: سابق سفارتی علاقہ بُرقعہ اسکوائر بن چُکا ہے
17 اگست 2016زابینے گالوشکا کی پھولوں کی دکان باڈگوڈِس برگ کی مرکزی سڑک پر ہے اور وہ اس علاقے میں رہائش پذیر کافی زیادہ لوگوں کو جانتی ہیں۔ ان کی اپنے گاہکوں سے صرف پھولوں سے متعلق ہی نہیں بلکہ مختلف موضوعات پر بھی بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ آج کل اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ آیا جرمنی میں برقعے پر پابندی ہونی چاہیے؟
اس بارے میں زابینے گالوشکا کا آہ بھرتے ہوئے کہنا تھا، ’’مجھے یہ بات مناسب نہیں لگتی کہ یہاں پر سبھی برقعے میں گھومتے رہیں، ہم بھی تو برقعہ نہیں پہنتے۔ مجھے تجسس رہتا ہے کہ برقعے کے پیچھے کون ہے؟‘‘
تاہم ایسا بھی نہیں ہے کہ اس علاقے میں سبھی مسلمان خواتین باپردہ گھومتی ہیں۔ موسم گرما میں اس علاقے میں آئیں تو آپ کو شدید تضادات ملیں گے۔ ایک طرف نوجوان لڑکیوں نے مختصر لباس پہنے ہوتے ہیں تو دوسری طرف ایسی خواتین نظر آتی ہیں، جنہوں نے ایسے برقعے پہن رکھے ہوتے ہیں، جن میں سے صرف آنکھیں ہی نظر آتی ہیں۔
تاہم بہت سے جرمن اس علاقے میں ایسے بھی ہیں، جنہیں مسلم خواتین سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ پھولوں کی دکان کے قریب سے گزرنے والی ایک خاتون کا اس بحث میں شریک ہوتے ہوئے کہنا تھا، ’’میں تو یہاں کی عرب خواتین کے بارے میں کچھ بھی برا بالکل نہیں کہنا چاہتی۔ ان میں سے زیادہ تر میرے ساتھ بہت ہی عزت سے پیش آتی ہیں اور کئی تو خود بڑھ کر سلام دعا کرتی ہیں لیکن یہ بات کبھی کبھار عجیب لگتی ہے کہ یہ اپنا چہرہ بھی چھپاتی ہیں۔‘‘
تاہم اس جرمن خاتون کا کہنا تھا کہ نہ تو اس کا نام شائع کیا جائے اور نہ ہی تصویر۔ برقعہ اور مہاجرین کی آمد دو ایسے موضوعات ہیں، جن کے بارے میں کوئی بھی اس علاقے میں شوق سے بات نہیں کرنا چاہتا تاہم اس علاقے میں افواہوں کی بھی کمی نہیں ہے۔
ایک دکان پر یہ بحث چل رہی ہے کہ کچھ لوگ عرب تاجروں کے لیے اس علاقے میں مزید گھر اور فلیٹ خریدنے والے ہیں۔ کچھ جرمن کہہ رہے ہیں کہ یہ لوگ ایک کیوبک میٹر کے لیے بیس یورو کرایہ ادا کرنے کے لیے تیار ہیں جبکہ ابھی اوسطاﹰ کرایہ آٹھ یا نو یورو فی کیوبک میٹر ادا کیا جا رہا ہے۔
اسی دکان پر بیٹھے ہوئے ایک جرمن کا کہنا تھا، ’’یہ دوہرا معیار ہے کہ عربوں کے پیسے تو ہر کوئی چاہتا ہے لیکن ان کو کوئی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘‘
دریں اثناء پھولوں والی دکان پر ہی ایک پچاس سالہ جرمن خاتون زیمونے لیوان کا کہنا تھا کہ شیشہ کیفیز کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ ساتھ وہ سڑکوں کے بدلتے ہوئے مناظر کے بارے میں بھی فکر مند ہیں۔ غیر ملکیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے روایتی جرمن دکانیں بھی بند ہو رہی ہیں۔ زیمونے لیوان کا مزید کہنا تھا، ’’اب یہاں جرمن یا اطالوی کلچر ختم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ جگہ جگہ عربی زبان میں لکھے حروف نظر آتے ہیں۔‘‘
تاہم ان سب باتوں کو اس علاقے کی عمومی قدریں قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جہاں تمام بڑی مارکیٹوں میں جرمن اور انگلش زبان میں معلومات فراہم کی گئی ہیں، وہاں کئی جگہ عربی زبان میں بھی یہ ہدایات لکھی ہوئی ملتی ہیں۔