جرمنی کورونا کی ممکنہ وبا سے نمٹنے کے لیے کیا کر رہا ہے؟
28 فروری 2020جرمنی میں آج جمعہ 28 فروری تک کُل 52 افراد میں کورونا وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے۔ ان میں سے 32 کیسز گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران سامنے آئے ہیں اور اب تک یہ وائرس قریب ایک جرمن ریاستوں تک پہنچ چکا ہے۔
کورونا وائرس کی ایک نئی قسم کے سبب ہونے والی بیماری کووِڈ 19 کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اور اس کے خلاف مؤثر اقدامات کے لیے جرمن حکومت نے ایک نئی کرائسز ٹیم تشکیل دی ہے۔ جرمنی میں متعدی بیماریوں کے انسداد کے ادارے رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ RKI کے صدر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کورونا وائرس عام فلو کے مقابلے میں جرمنوں کے لیے زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
لوتھر وِیلر کے مطابق ابھی تک یہ واضح نہیں کہ جرمنی میں یہ بیماری کس شرح سے متاثرین کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک خوفزدہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں، ''یہ ابھی تک قابو سے باہر نہیں ہوئی۔ صوبہ باویریا میں ایک صورتحال پیش آئی جس پر ہم نے کامیابی سے قابو پالیا۔ پھر دو روز قبل دو نئے کیسز سامنے آئے اور طبی حکام یہ جاننے میں مصروف ہیں کہ انہیں یہ وائرس کہاں سے لگا۔‘‘
جرمن وزیر صحت ژینس سپاہن نے کرائسز ٹیم کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت: ''کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور جرمنی، یورپ یا پوری دنیا میں پیدا ہونے والی کسی بھی صورتحال پر ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔‘‘
جرمن شہروں میں لاک ڈاؤن کے امکانات نہیں
جرمنی میں کورونا وائرس سے سب سے پہلے متاثرین کا تعلق صوبہ باویریا میں موجود ایک ایسی کمپنی سے تھا جو چین کے ساتھ روابط رکھتی ہے۔ تاہم گزشتہ کچھ دنوں کے دوران جرمن ریاستوں باڈن ورٹمبرگ اور نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں بھی کچھ افراد میں کورونا وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔
آر کے آئی کے مطابق طریقہ کار تاہم وہی رہے گا کہ متاثرہ شخص کو الگ تھلگ رکھا جائے اور ان لوگوں کی بھی طبی جانچ کی جائے جو اس سے رابطے میں رہے ہوں۔
دوسری طرف آر کے آئی کے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ ان کے خیال میں اس بات کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا کہ جرمنی کے کسی متاثرہ شہر کو لاک ڈاؤن کیا جائے۔
جرمنی میں انفیکشن پروٹیکشن ایکٹ موجود ہے جو اس بارے میں رہنمائی کرتا ہے کہ اگر کوئی متعدی بیماری پھیلے تو کیا اقدامات کیے جائیں گے۔ قدرتی آفات اور اس طرح کی کسی وبا سے نمٹنے کی ذمہ داری عام طور پر وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے تاہم کسی وبائی صورتحال کے لیے جرمن ریاستیں بھی اپنا منصوبہ رکھتی ہیں۔ تاہم ایک ضابطہ یہ بھی ہے کہ جب تک متعدی بیماری کا پھیلاؤ قابو میں رہنے کے امکانات ہوتے ہیں اسے کوئی بڑی آفت قرار نہیں دیا جاتا۔
انتہائی شدید اقدامات کا فی الحال کوئی امکان نہیں
جرمنی کی تمام 16 ریاستوں کسی ایمرجنسی صورتحال میں لوگوں کے تحفظ کے لیے واضح ضوابط رکھتی ہیں مگر فی الحال یہ سب دور کی کوڑی لگتی ہیں۔
مثال کے طور پر جرمن ریاست برانڈن برگ کے قانون کے مطابق کسی بڑی آفت سے نمٹنے والے اقدامات تب کیے جائیں گے جب بہت بڑی تعداد میں لوگوں کی زندگی یا صحت کو شدید خطرہ ہو یا پھر عوام کی سلامتی یا امن و امان کو خطرات لاحق ہوں۔
تاہم حکام کو اس بات کی اجازت ہے کہ اگر انہیں اس بات کا یقین ہو کہ عوامی صحت کو سنگین خطرات لاحق ہیں تو وہ عوامی جگہوں اور ٹرانسپورٹ وغیرہ میں لوگوں کی صحت کی جانچ کر سکتے ہیں۔ اور انہیں عوامی اجتماعات کو معطل کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے۔
جرمن صوبہ نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں کورونا وائرس کے کیسز سامنے آنے کے بعد بعض اسکول اور گنڈرگارٹن پہلے ہی کچھ وقت کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔
علاوہ ازیں یہ قریب قریب ناممکن ہے کہ جرمنی کے کسی بڑے شہر کو مکمل طور پر الگ تھلگ کر دیا جائے جیسا کہ چین میں ہو چکا ہے۔ کسی ایسے علاقے کے لوگوں کو شہر میں داخلے سے روکا جا سکتا ہے جو بیماری سے متاثرہ ہو۔ اسی طرح کسی کو کوئی مخصوص جگہ نہ چھوڑنے کا بھی کہا جا سکتا ہے۔
فوج کی تعیناتی اتنی آسان نہیں
جرمنی میں کسی ہنگامی صورتحال یا قدرتی آفت وغیرہ سے نمٹنے کے لیے ایک منفرد بات یہ ہے کہ ملک کی سرحدوں کے اندر ایسی کسی صورتحال میں فوج کی تعیناتی انتہائی مشکل ہے۔ اگر ماضی میں کہیں فوج کو استعمال کیا بھی گیا ہے تو انتہائی محدود پیمانے پر۔ مگر کسی وبائی صورتحال میں فوج کو استعمال کرنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ایمرجنسی چیک، گرفتاریاں یا عوامی مقامات کی بندش وغیرہ، جرمنی میں یہ تمام اقدامات کرنے کا حق صرف پولیس کو حاصل ہے۔
ا ب ا / ش ح (الیزبتھ شوماخر)