جرمنی کی بھی افغان طالبان سے ابتدائی گفتگو، خصوصی جرمن مندوب
19 اکتوبر 2018ماضی میں افغانستان میں جرمن سفیر کے طور پر فرائض انجام دینے والے مارکوس پوٹسیل کو چانسلر میرکل کی حکومت نے کچھ عرصہ قبل پاکستان اور افغانستان کے لیے جرمنی کا خصوصی مندوب نامزد کر دیا تھا۔ پوٹیسل نے ہندو کش کی اس ریاست میں کل ہفتہ بیس اکتوبر کو ہونے والے پارلیمانی الیکشن سے ایک دن پہلے برلن میں ڈوئچے ویلے ٹیلی وژن کے ساتھ ایک انٹرویو میں جمعہ انیس اکتوبر کے روز کہا کہ طویل خانہ جنگی کی شکار اس ریاست میں عام انتخابات کا انعقاد ایک خوش آئند جمہوری عمل ہے۔
جمہوریت کا سفر
مارکوس پوٹسیل نے کہا کہ ہندو کش کی اس ریاست میں اگرچہ طالبان عسکریت پسندوں کے حملوں میں پچھلے کچھ عرصے کے دوران مزید شدت آ چکی ہے اور طالبان حملہ آور اپنی خونریز کارروائیوں سے یہ قومی انتخابی عمل ناکام بنانے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں، تاہم اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ انتخابی عمل افغانستان میں جمہوری عمل کو مزید آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہو گا۔
مارکوس پوٹسیل کے مطابق آئندہ ویک اینڈ پر ہونے والے عام الیکشن میں پہلی بار بہت سے نوجوان امیدوار بھی حصہ لے رہے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ افغان باشندوں کی نوجوان نسل طویل جنگ اور جنگی تباہ کاریوں سے چھٹکارا پا کر اپنے وطن کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کرنا چاہتی ہے۔
پوٹسیل نے کہا، ’’افغان عوام کی بڑی تعداد عشروں سے جاری بدامنی اور جنگی سرداروں کی مسلح سیاست سے تنگ آ چکی ہے۔ وہ امن اور خوشحالی کی زندگی گزارنا چاہتی ہے۔ یہ الیکشن اس منزل کے حصول کی طرف ایک اہم قدم ہیں۔‘‘
طالبان سے ابتدائی مذاکرات
افغانستان میں دیرپا قیام امن کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں پاکستان اور افغانستان کے لیے جرمنی کے خصوصی مندوب نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’امریکی نمائندوں نے بھی حال ہی میں قطر میں افغان طالبان کے نمائندوں سے ملاقاتیں کیں۔ ہم (جرمنی) بھی طالبان کے ساتھ ابتدائی مذاکرات میں مصروف ہیں۔ میری رائے میں برلن اس مذاکراتی عمل میں اپنا ایک خصوصی کردار بھی ادا کر سکتا ہے۔‘‘
مارکوس پوٹسیل نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’افغان عوام جرمنی اور جرمنوں پر بہت زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔ افغان حکومت تو خاص طور پر۔ اور ایک خاص حد تک تو طالبان بھی یہ چاہتے ہیں کہ جرمنی ان کے اور کابل حکومت کے مابین مکالمت میں سہولت کار کے فرائض انجام دے۔‘‘ تاہم ساتھ ہی اس اعلیٰ جرمن سفارت کار نے یہ بھی کہا کہ افغانستان کا مسلح تنازعہ بالآخر خود افغانوں کو آپس میں مل کر ہی طے کرنا ہو گا۔
سب سے بڑی غلطی
اس سوال کے جواب میں کہ قریب سترہ سال سے افغانستان میں اپنی عسکری طاقت کے ساتھ موجود بین الاقوامی برادری نے وہاں سب سے بڑی غلطی کون سی کی ہے، مارکوس پوٹسیل نے کہا، ’’ہم نے نگرانی کے کسی نظام کے بغیر افغانستان کو بہت زیادہ مالی وسائل فراہم کیے، کسی کنٹرول کے بغیر رقوم پانی کی طرح بہائیں۔ اس سے وہاں بدعنوانی کو مزید ہوا ملی۔‘‘
م م / ع ت / ڈی ڈبلیو آئی این اے