جرمنی کی سب سے بڑی مسجد کا افتتاح
26 اکتوبر 2008جرمنی کے شہر Duisburg میں تعمیر کی جانے والی مرکز مسجد رقبے کے اعتبار سے جرمنی کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس میں بارہ سو نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے مینار کی اونچائی چونتیس میٹر ہےجبکہ مرکزی گنبد تئیس میٹر بلند ہے۔ اس مرکزی گنبد کے اردگرد کئی چھوٹے چھوٹے گنبد بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ مسجد کا اندرونی حصہ بھی بہت خوبصورت ہے۔ دیواروں پر نقش و نگار بنائے گئے ہیں اور قرآنی آیات بھی درج ہیں۔ سب سے خوبصورت ہے مسجد کے بڑے ہال میں لگا فانوس جس پر اللہ کے ننانوے ناک کنندہ ہیں۔ مسجد کی عمارت کے اندر کئی اور ہال بھی ہیں۔ مسجد کی انتظامیہ کے مطابق ان میں بین الاقوامی مذاہب کے مابین مکالمت کے علاوہ بھی کئی پروگرام کروائے جا سکیں گے۔
اس مسجد کی تعمیرکے لیے پچھتر لاکھ یورو کی رقم درکار تھی۔ جس کے لیے نہ صرف عام شہریوں نے چندہ دیا بلکہ شہری بلدیہ اور یورپی یونین نے اس مسجد کی تعمیر کے لیے تین اعشاریہ دو ملین یوروکی رقم فراہم کی ہے۔ یہ رقم کل تعمیراتی خرچے کے ایک تہائی کے برابر ہے۔ اس کی تعمیر میں ساڑھے تین سال کا عرصہ لگا ہے۔
یہ مسجد ہر کسی کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ ایک جرمن نوجوان بھی اسے دیکھنے کے لیے خصوصی طور پر آیا ہوا ہے۔ :’’ میرے نزدیک اس مسجد کی عمارت انتہائی متاثر کن ہے۔ یہ مسجد شاندار طرز تعمیر کی حامل ہے۔ میری والدہ کئی مرتبہ یہاں آ چکی ہیں۔ ان کی باتیں سن کر مجھے بھی شوق ہوا کہ میں اس مسجد کو دیکھوں۔ میں یہ دیکھنے آیا ہوں کہ یہ کیسی لگ رہی ہے۔ ‘‘
ایک بیاسی سالہ بزرگ آدمی بھی اس نئی مسجد کو دیکھنے کے لیے آیا ہوا ہے۔ وہ مسجد کو بہت حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا :’’خوبصورت، بہت خوبصورت۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا ہوں کہ مسجد اتنی بڑی بھی ہو سکتی ہے‘‘ ۔اس مسجد کی تعمیر میں ہاتھ بٹانے والے ترک شہری عثمان چالک کا کہنا ہے کہ ’’یہ ایک مذاکراتی مرکز بھی ہے۔ یہاں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والا آ سکتا ہے۔ مسجد کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں۔ ‘‘
ڈوئس برگ کے لارڈ میئر آرڈولف زاور نے جرمنی میں مقیم مسلمانوں اور جرمن عیسائیوں کے مابین باہمی اشتراک عمل کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’ذاتی طور پر یہ مسجد میرے لیے بہت اہم ہے کیونکہ میں مذاہب کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں ۔‘‘
جرمنی کی یہ مسجد اس بات کا ثبوت ہے کہ جرمنی میں آباد تین ملین مسلمان اب صرف’ گیسٹ ورکرز‘ کا درجہ نہیں رکھتے بلکہ وہ جرمن معاشرے کا ایک اہم حصہ بن چکے ہیں۔ جرمنی میں اس وقت دو سو چھ مساجد ہیں اور مزید ایک سو بیس تعمیراتی مراحل میں ہیں۔