جرمنی کے ایٹمی پلانٹ کے بارے میں کمیشن کی رپورٹ
18 مئی 2011دریں اثناء تمام سیاسی جماعتوں نے اس امر پر اتفاق کر لیا ہے کہ فوراً سے پیشتر قابل تجدید توانائی پر انحصار کیا جائے۔ یعنی شمسی توانائی، ہوا اور پانی سے حاصل کی جانے والی توانائی کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لایا جائے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی ان اقدام کےلیے گرین سگنل دے دیا ہے۔ جرمن ماہرین نے اپنی17 ایٹمی تنصیبات کے بارے میں چھان بین مکمل کر لی ہے۔ یہ عمل سیاسی حلقوں کے لیے گہرے ذہنی دباؤ کا سبب تھا۔ آخر کار گزشتہ منگل کو ایٹمی ری ایکٹرز کے حفاظتی انتظامات اور صورتحال جانچنے کے لیے قائم کیے گئے ایک آزاد کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آئی۔ جسے برلن میں پیش کرتے ہوئے وفاقی جرمن وزیر ماحولیات نوربرٹ رُٹگن نے کہا کہ اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد جرمنی جوہری توانائی کے استعمال کو قابل تجدید توانائی کے استعمال سے کتنے جلدی تبدیل کرتا ہے یہ فیصلہ اب وفاقی پارلیمان میں ہوگا۔ جرمن وزیر کے بقول آئندہ جون سے اس بارے میں صلاح و مشورے کا سلسلہ شروع ہوگا۔
جاپان میں آنے والے زلزلے اور سونامی لہروں کے سبب فوکوشیما کے جوہری پلانٹ سے تابکار شعاؤں کے اخراج سے پھیلنے والی تباہی نے جرمن معاشرے کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ ہوا یہ کہ اس واقعے کے بعد سے ایٹمی حادثات کا خوف حقیقی نظر آنے لگا ہے۔ اس کے سبب جرمن حکومت نے ایک واضح اسٹاپ سگنل دکھا دیا ہے۔ جرمنی کے سات ایٹمی گھروں کو فی الوقت بند کر دیا گیا ہے۔ جرمن ایٹمی تنصیبات کی چھان بین کرنے والے کمیشن کے سربراہ روڈولف ویلنڈ نے فوکوشیما کے المیے کا جرمنی کی صورتحال سے موازنہ کرنے سے خبر دار کیا ہے۔
اُن کے بقول’ اب تک کی معلومات سے یہی پتہ چلتا ہے کہ نارمل حالات میں فوکوشیما کے واقعے کو یقیناً مد نظر رکھا جانا چاہیے، تاہم اس کا مقابلہ جرمنی کے جوہری پلانٹس کے ساتھ کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارے پلانٹس میں فوکوشیما کے جوہری پلانٹ جیسا کوئی بھی نقص قطعاً نہیں پایا جاتا‘۔
ایٹمی ری ایکٹرز کی سلامتی انتظامات اور صورتحال جانچنے کے لیے قائم کیے گئے کمیشن کی تازہ ترین رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ جرمنی کے جوہری پلانٹ بدترین زلزلے، خوفناک سیلاب، ہوائی جہاز گر جانے کے حادثے اور لمبے عرصے تک کے لیے بجلی منقطع ہو جانے کی صورت میں کس حد تک محفوظ ہیں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: عدنان اسحاق