1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: ہر چار میں سے ایک بچہ ذہنی بیماری میں مبتلا

23 نومبر 2019

جرمنی کی ایک ہیلتھ انشورنس کمپنی کی طرف سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اس ملک میں ہر چوتھا بچہ ذہنی بیماری میں مبتلا ہے۔ جبکہ ان میں سے بہت سے بچے کئی کئی ہفتے ہسپتالوں میں گزارتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3TaFC
Symbolbild junges Mädchen Gewalt Vergewaltigung
تصویر: picture-alliance/Photoshot

جرمنی کی ہیلتھ انشورنس کمپنی 'ڈی اے کے‘ نے مریضوں کے ڈیٹا پر مشتمل ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق ہر چار میں سے ایک بچہ کسی نہ کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہے۔ یہ رپورٹ اُن آٹھ لاکھ بچوں کا ڈیٹا جمع کرتے ہوئے مرتب کی گئی ہے، جنہوں نے سن دو ہزار سولہ سے دو ہزار سترہ کے درمیان اس کمپنی کے پاس ہیلتھ انشورنس کروائی تھی۔

خطرناک نتائج

اعداد و شمار کے مطابق چوبیس فیصد جرمن بچے نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہیں۔ لیکن  دس سے سترہ سال کی عمر کے درمیان ڈپریشن کے شکار بچوں کی تعداد صرف دو فیصد ہے۔ خوف اور پریشانی کے شکار بچوں کی تعداد دو اعشاریہ دو فیصد بتائی گئی ہے۔

ماہرین کے مطابق اگر اس ہیلتھ انشورنس کمپنی کے ڈیٹا کو جرمنی کے دس سے سترہ برس کے تمام بچوں پر اپلائی کیا جائے تو یہ تعداد دو لاکھ اڑتیس ہزار بنتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سن دو ہزار سترہ کے مقابلے میں چائلڈ ڈپریشن میں پانچ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جرمنی میں بچوں کی عام بیماریوں کی فہرست میں ذہنی بیماریاں پانچویں نمبر پر آتی ہيں۔ چوتھے نمبر پر سانس کی بیماریاں آتی ہیں جبکہ انفیکشنز تیسرے، آنکھ کی بیماریاں دوسرے اور جلد کی پہلے نمبر پر ہیں۔       

لڑکیاں زیادہ حساس ہیں

لڑکوں کے مقابلے میں ڈپریشن کا شکار ہونے والی لڑکیوں کی تعداد دو گنا ہے جبکہ یہ فرق چودہ برس کی عمر میں ہی واضح ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں ڈپریشن کے شکار بچوں میں سے تقریباً سترہ فیصد کو اینٹی ڈپریشن ادویات دی گئیں۔

 متاثرہ بچوں میں سے آٹھ فیصد کا علاج ہسپتالوں میں کیا گیا اور اوسطاﹰ ان بچوں کا ہسپتالوں میں قیام 39 دنوں کے برابر تھا۔ ان میں سے ایک تہائی بچے علاج کے لیے دوبارہ ہسپتال پہنچے۔

تاہم اعداد و شمار کے مطابق ڈپریشن کی بجائے دائمی ذہنی مسائل کا سامنا کرنے والے بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسکول جانے والے بچوں میں ذہنی بیماریاں پیدا ہونے کا خطرہ عام بچوں کی نسبت زیادہ ہے۔ اس رپورٹ میں کہا ہے گیا ہے کہ گھروں میں، اسکولوں میں اور دوستوں کے حلقوں میں بچوں کا خاص خیال رکھا جانا ضروری ہے تاکہ ایسے بچوں کو بہتر اور خاص توجہ فراہم کی جا سکے۔

کریسٹی پلایڈسن / ا ا