جرمنی یونیورسٹیوں کو مزید پرکشش بنانے کی ضرورت ہے
19 اپریل 2013جرمنی میں اکثر غیر ملکی طلبہ شکایت کرتے ہیں کہ تعلیم کے دوران اور ڈگری مکمل کرنےکے بعد یونیورسٹیوں کی جانب سے تعاون اس طرح سے فراہم نہیں کیا جاتا، جس طرح سے کیا جانا چاہیے۔ یوکرائن سے تعلیم کے غرض سے جرمنی آنے والی ایک طالبہ یونیورسٹی میں گزارے ہوئے وقت کو بہت یاد کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد یونیورسٹی کی جانب سے بہتر تعاون کی امید تھی۔ حالانکہ جرمن اقتصادیات میں تیزی سے ہونے والی ترقی کی وجہ سے اس ملک کو آج کل انجینئرنگ اور آئی ٹی کے شعبے میں پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے افراد کی شدید ضرورت ہے۔ ساتھ ہی طبی میدان میں بھی دیکھ بھال کرنے والے افراد کی اشد قلت ہے۔
جرمنی میں تعلیمی تبادلے کے ادارے DAAD کی کوشش ہے کہ 2020ء تک تقریباً ساڑھے تین لاکھ غیر ملکی طالب علم جرمنی کا رخ کریں۔ یہ تعداد آج کل کے مقابلے میں ایک لاکھ زیادہ ہے۔ ڈاڈ کو جرمن وزارت خارجہ اور تعلیم و تحقیق کی جرمن وزارت وسائل فراہم کرتی ہے۔ یہ ادارہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے جرمن طلبہ اور جرمنی میں غیر ملکی طالب علموں کو وظیفے فراہم کرتا ہے۔ ڈاڈ کے مطابق 2012ء کے دوران تقریباً 45 ہزارغیر ملکی جبکہ تیس ہزار سے زائد جرمن طلبہ کو تعلیمی معاونت مہیا کی گئی۔
تاہم یہ امر ابھی بھی غیر واضح ہے کہ ڈاڈ کو اس مقصد کے لیے مزید سرمایہ فراہم کیا بھی جائے گا یا نہیں۔ ڈاڈ کی سربراہ مارگریٹ ونٹرمانٹل ’Margret Wintermantel ‘ کہتی ہیں کہ اس تناظر میں وہ تمام اداروں کے ساتھ بات چیت کریں گی کیونکہ یہ ادارہ جرمن طالب علموں کی ایک بڑی تعداد کو بھی دیگر ممالک میں بھیجنا چاہتا ہے، گو اس پر بہت زیادہ اخراجات آئیں گے۔
غیر ملکی طلبہ کی جرمنی میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یونیورسٹیوں میں انگریزی زبان میں زیادہ سے زیادہ کورسز متعارف کرائے جائیں۔ ساتھ ہی داخلہ دینے کے طریقہ کار اور غیر ملکی ڈگریوں کو تسلیم کرنے کے نظام کو بھی سہل بنانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں اصل مشکل ان طلبہ کو درپیش آتی ہے جو کسی غیر یورپی ملک سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے جرمنی آتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ پاکستان یا افغانستان کی یونیورسٹیوں سے ماسٹرز کر کے آنے والے طلبہ کو اپنے کئی مضامین دہرانا پڑتے ہیں۔
ڈاڈ کی یہ بھی خواہش ہے کہ بیرون ملک قائم یونیورسٹیوں سے اشتراک اور تعاون بڑھایا جائے اور ان تعلیمی اداروں میں جرمن زبان سکھانے کے کورسز بھی شروع کیے جائیں۔ اس تناظر میں ونٹر مانٹل کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں ثابت کرنا ہو گا کہ ہمارے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں۔ اسی طرح جرمن یونیورسٹیاں دیگر ممالک کے اعلٰی تعلیمی اداروں کا مقابلہ کر سکیں گی‘‘۔ ایک رپورٹ کے مطابق آج کل غیر ملکی طلبہ کی دلچسپی کے حوالے سے جرمنی پانچویں یا شاید چوتھے نمبر پر آتا ہے۔ اس حوالے سے امریکا اور برطانیہ بدستور سرِفہرست ہیں، جن کے بعد فرانس اور آسٹریلیا کے نام آتے ہیں۔
N.conrad / ai / aa