1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمنی:عدالت نے اذان پرعائد پابندی ختم کردی

24 ستمبر 2020

اذان دینے پر یہ پابندی ایک مسیحی جوڑے کی شکایت پر عائد کی گئی تھی کہ اذان سے ان کی مذہبی آزادی میں مداخلت ہوتی ہے تاہم عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اذان کی آواز سننے والوں کے کسی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔

https://p.dw.com/p/3ivEh
DITIB-Zentralmoschee, Köln
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Meissner

مغربی جرمنی کے شہر مونسٹر کی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مقامی مسجد کو نماز جمعہ کے لیے اذان دینے کی اجازت ہے۔  عدالت نے یہ فیصلہ اوہرایر کنشویک قصبے کی انتظامیہ کی اس اپیل پر سنایا جس میں مسجد کو اذان دینے پر عائد پابندی کے سابقہ فیصلے کو منسوخ کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

 جج Annette Kleinschnittger نے اپنے فیصلے میں کہا کہ”ہر سماج کو یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ لوگوں کواس کا علم ہونا چاہیے کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے اپنے عقائد پر کس طرح عمل کرتے ہیں۔"

قانون کی غلط تشریح

خیال رہے کہ 2018 میں جرمنی میں ایک مقامی عدالت نے مسجد کے قریب رہنے والے ایک مقامی مسیحی جوڑے کی شکایت پر جمعے کی نماز کے لیے مسجد میں اذان دینے پر پابندی لگا دی تھی۔  یہ جوڑا مسجد سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر رہتا تھا۔  اس نے اپنی شکایت میں کہا تھا کہ مسجد کے موذن کے ذریعہ جمعے کے روز لاؤڈ اسپیکر پر دی جانے والی اذان ان کے مسیحی عقائد اور مذہبی آزادی کے منافی ہے۔

مونسٹر کی عدالت نے پایا کہ مذہبی آزادی کے قانون کے ایک حصے کی 'منفی مذہبی آزادی‘  کے طور پر تشریح کی گئی تھی جبکہ یہ قوانین کسی دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے اعتقاد میں مداخلت کا حق نہیں دیتے بلکہ یہ ان کی مرضی کے برخلاف مذہبی امور میں شرکت کرنے کے لیے مجبور کرنے سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

شکایت کیا تھی؟

اذان کے خلاف درخواست دینے والے مسیحی جوڑے کے وکیل نے اپنی دلیل میں کہا کہ ان کی شکایت اذان سے پیدا ہونے والے شور پر نہیں بلکہ اذان میں استعمال ہونے والے الفاظ پر تھی۔  درخواست گزار کے وکیل نے اپنے موقف میں کہا، ”اذان کا تقابل کلیسا میں بجنے والی گھنٹی سے نہیں کیا جا سکتا۔ موذن کی اذان میں الفاظ کے ذریعے عقائد کا اظہار کیا جاتا ہے جس کے ذریعے اذان سننے والے کو نماز میں شرکت کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔"

خیال رہے کہ نماز کے لیے دی جانے والی اذان میں حئی علی الصلواۃ اور حئی علی الفلاح یعنی نماز کی طرف آو اور کامیابی کی طرف آو کے جملے بھی ادا کیے جاتے ہیں۔

اذان مذہبی آزادی کے خلاف نہیں

اذان دینے کی اجازت منسوخ کیے جانے سے قبل مسجد کو ہفتہ میں ایک مرتبہ دو منٹ کے لیے اذان دینے کی اجازت تھی۔ یہ مسجد ڈی آئی ٹی آئی بی نامی تنظیم کے زیر انتظام ہے، جو جرمنی میں 900 مساجد کا انتظام و انصرام کرنے والی سب سے بڑ ی تنظیم ہے۔ اس کے امام تعلیم یافتہ ہیں اور اس کے اخراجات ترکی حکومت برداشت کرتی ہے۔  تاہم یہ تنظیم جرمنی کی داخلی انٹلی جنس ایجنسی کے نگاہ میں بھی ہے۔

 مسجد کو اذان دینے کی اجازت منسوخ کرنے والی مقامی انتظامی عدالت نے 2018 میں اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ مقامی حکام کو قواعد و ضوابط کے مطابق لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی اجازت دیتے وقت مسجد کے قریب رہنے والے رہائشیوں سے اس عمل کے 'سماجی طور پر قابل قبول‘ ہونے کے حوالے سے بھی مشاورت کرنا چاہیے تھی۔ جبکہ حکام نے صرف یہ بات پیش نظر رکھی کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز کتنی بلند ہے۔

 مقامی عدالت نے تاہم مذکورہ مسیحی جوڑے کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا تھا کہ اذان ان کی 'مذہبی آزادی‘ کے خلاف ہے۔ 

ج ا/ز ص ز (ڈی پی اے، کے این اے)

اسرائیل میں اذان کی بلند آواز ایک مسئلہ؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں