1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: سیاسی پناہ کے متلاشیوں کے لیے ’بلیو کارڈ‘ کی تجویز

Jan Walter / امجد علی22 جولائی 2015

روزگار کی وفاقی جرمن ایجنسی نے مطالبہ کیا ہے کہ سیاسی پناہ کے متلاشی ایسے افراد کو روزگار کی منڈی تک آسان رسائی کا موقع دیا جائے، جو اعلیٰ تعلیمی قابلیت کے حامل ہوں اور مخصوص شعبوں میں زیادہ سے زیادہ مہارت رکھتے ہوں۔

https://p.dw.com/p/1G2d8
Symbolbild Blue Card für Europa
تصویر: picture-alliance/chromorange

جہاں روزگار کی منڈی کے ماہرین نے اس تجویز کو با معنی اور سود مند قرار دیا ہے، وہاں اس تجویز کی مخالفت بھی ہوئی ہے۔ دراصل ابھی تک صرف ایک سیاستدان نے اس تجویز کی مخالفت کی ہے اور وہ ہیں، حکمران کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے ایک رکنِ پارلیمان اور وزارتِ داخلہ میں پارلیمانی اسٹیٹ سیکرٹری گنٹر کرِنگز، جن کا خیال ہے کہ اگر سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کو اپنا روزگار خود کمانے کے مواقع دے دیے گئے تو سیاسی پناہ کی درخواستوں میں اضافہ ہو جائے گا۔

’بلیو کارڈ‘ قیام کا وہ اجازت نامہ ہے، جس کے تحت ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر ملکیوں کو یورپی یونین کے رکن ممالک میں پیسہ کمانے کی اجازت دی جاتی ہے، جو یورپی یونین سے تعلق نہیں رکھتے۔ اب تک اس کارڈ کے لیے درخواست دینے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ متعلقہ غیر ملکی نے کسی ایسی کمپنی کے ساتھ ملازمت کا معاہدہ کیا ہو، جس کا ہیڈکوارٹر جرمنی میں ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اُن کے پاس جرمنی کا ویزہ ہو، جو کہ سیاسی تعاقب کے شکار یا جنگوں کے باعث گھر بار چھوڑ کر آنے والے پناہ کے متلاشیوں کے پاس نہیں ہوتا۔ ایسے میں روزگار کی وفاقی جرمن ایجنسی نے سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کے لیے کوئی اور ضابطہ وضع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

Deutschland Fachkräfte Fachkräftemangel Industrie beim Bosch
’بلیو کارڈ‘ کا بنیادی مقصد جرمنی میں ماہرین کی کمی کو پورا کرنا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

کولون میں جرمن معیشت کے انسٹیٹیوٹ (IW) سے وابستہ وِیڈو گائز امیگریشن اور روزگار کی منڈی کے ماہر ہیں۔ اُن کے خیال میں ایسا نہیں گا کہ ’بلیو کارڈ‘ زیادہ سے زیادہ غیر ملکیوں کو غیر قانونی طور پر جرمنی میں داخل ہونے کی ترغیب دے گا۔ وہ کہتے ہیں:’’پناہ کے متلاشی زیادہ تر افراد کے پاس وہ تعلیمی قابلیت ہی نہیں ہوتی، جو ’بلیو کارڈ‘ کے لیے ضروری ہے۔‘‘

’بلیو کارڈ‘ کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ اُس شخص نے کسی منظور شُدہ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم کی ڈگری حاصل کر رکھی ہو اور ساتھ ساتھ اُس نے ملازمت کا کوئی ایسا معاہدہ طے کیا ہو، جس میں اُس کے لیے معقول تنخواہ رکھی گئی ہو۔ جرمنی میں اُس کی سالانہ آمدنی کم از کم چھیالیس ہزار چار سو یورو ہونی چاہیے۔ جن شعبوں میں ماہرین کی خاص طور پر زیادہ ضرورت ہے، وہاں کم از کم حد سینتیس ہزار سات سو باون یورو ہے۔ یہ حد انجینئرز، سائنسدانوں، کمپیوٹر کے ماہرین اور میڈیکل ڈاکٹروں کے لیے ہے۔ وِیڈو گائز کے مطابق اس وقت جرمنی میں سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کی تعداد دو لاکھ چالیس ہزار ہے، جن کی دو تہائی تعداد سرے سے کسی تعلیم یا پیشہ ورانہ مہارت سے محروم ہے۔

Gesetzesentwurf gegen Präimplantationsdiagnostik
کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے ایک رکنِ پارلیمان اور وزارتِ داخلہ میں پارلیمانی اسٹیٹ سیکرٹری گنٹر کرِنگزتصویر: picture-alliance/dpa

’بلیو کارڈ‘ کا بنیادی مقصد جرمنی میں ماہرین کی کمی کو پورا کرنا ہے۔ ایسے میں اگر سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کو بھی اس منصوبے کا حصہ بنا لیا جائے تو یہ ہر اعتبار سے قانون کے مطابق ہو گا۔ تاہم سیاسی پناہ کے یہ متلاشی اپنے اپنے ملک میں جرمنی کے ملازمت کے لیے ضروری ویزے کی درخواست دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے کیونکہ یا تو اُن کے ملک میں جنگ ہو رہی ہوتی ہے یا پھر وہ وہاں سیاسی تعاقب کا شکار ہوتے ہیں۔

اقتصادی ماہر گائز کے مطابق یہ مفروضہ کسی حد تک ممکن ضرور ہے کہ سیاسی پناہ کے متلاشیوں کے لیے ’بلیو کارڈ‘ کا سن کر ایسے لوگوں کو بھی یہاں کا رُخ کرنے کی ترغیب ملے، جنہیں یہ کارڈ ملنے کا کوئی حقیقی امکان موجود نہ ہو۔ تاہم دوسری طرف گائز یہ بھی کہتے ہیں کہ ’ایشیا میں ویسے ہی یہ افواہیں ہیں کہ سیاسی پناہ کے متلاشیوں کو جرمنی پہنچنے پر بھاری رقوم دی جاتی ہیں، افریقہ میں لوگ سمجھتے ہیں کہ جرمنی جا کر ہر کورئی رہ سکتا ہے اور کام کر سکتا ہے، ایسے میں اگر ’بلیو کارڈ‘ کا بھی چرچا ہو گیا تو اس سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں