1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جسم فروشی ناقابل قبول ہے، جرمن چانسلر اولاف شولس

16 نومبر 2023

جرمن چانسلر کا کہنا ہے کہ سیکس کو بیچنا ناقابل قبول ہے اور جسم فروشی پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔ وفاقی جمہوریہ جرمنی میں جسم فروشی کا پیشہ گوکہ ہمیشہ سے قانونی ہے لیکن اسے فروغ دینا 'غیر اخلاقی' فعل سمجھا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4YrJD
جرمنی میں سیکس بازار یا قحبہ خانے کا منظر
جرمنی میں حزب اختلاف کے قدامت پسند قانون ساز یسیکس کی خدمات خریدنے والے لوگوں' کے خلاف مقدمہ چلانے کے مطالبہ کرتے رہے ہیںتصویر: Stanislav Belicka/imagebroker/IMAGO

جرمن چانسلر اولاف شولس کا کہنا ہے کہ وہ جرمنی میں جسم فروشی کے پیشے پر مزید قانونی پابندیاں دیکھنا چاہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سیکس کی فروخت ''قابل قبول نہیں '' ہے اور اسے معاشرے میں ''معمول کی چیز'' قطعی نہیں بننے دینا چاہیے۔

جرمنی میں جسم فروشی: شمالی یورپی ماڈل کے نفاذ کا مطالبہ

انہوں نے بدھ کے روز جرمن پارلیمنٹ، بنڈسٹاگ، میں سوالات و جواب کے سیشن کے دوران کہا، ''میرے خیال میں مردوں کے لیے خواتین کو خریدنا قابل قبول نہیں ہے۔''

’’بے چہرہ - جسم فروش خواتین‘‘ کے عنوان سے نمائش

شولس کا مزید کہنا تھا، ''یہ وہ چیز ہے جس نے مجھے اخلاقی طور پر ہمیشہ غصہ دلایا ہے اور اس پر قابو پانے کے لیے ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی ہو گی۔''

جسم فروشی کے خلاف عالمی دن: ’یہ پیشہ نہیں، استحصالی نظام ہے‘

جرمنی میں حزب اختلاف کے قدامت پسند قانون ساز ''سیکس کی خدمات خریدنے والے لوگوں '' کے خلاف مقدمہ چلانے کے مطالبہ کرتے رہے ہیں، تاہم چانسلر نے اس سوال کا براہ راست کوئی جواب نہیں دیا۔

جرمنی:کاروبار دوبارہ شروع مگر قحبہ خانوں کے آداب بدل گئے

 البتہ انہوں نے یہ کہا کہ جسم فروشی کا تعلق بدسلوکی، تشدد اور اکثر مجرمانہ ڈھانچے سے ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس موضوع پر بحث کا خیرمقدم کریں گے کہ اس کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔

جرمنی میں قحبہ خانے کی ایک تصویر
وفاقی جمہوریہ جرمنی (بشمول سابق مغربی جرمنی) میں جسم فروشی کا پیشہ ہمیشہ سے قانونی رہا ہے، تاہم اس کے ساتھ ہی اسے فروغ دینا ''غیر اخلاقی'' سمجھا جاتا تھاتصویر: Stefan Ziese/imagebroker/IMAGO

کیا جرمنی میں جسم فروشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے؟

جرمن پارلیمان میں کرسچن ڈیموکریٹ/کرسچن سوشل یونین (سی ڈی یو) اور سی ایس یو کے قدامت پسند قانون ساز سویڈن اور ناروے جیسے ممالک میں عائد ضوابط کا حوالہ دیتے ہوئے صارفین کے ذریعے سیکس کی خریداری پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

لیکن اس میں خود سیکس ورکرز کو سزا نہ دیے جانے کی بات کہی گئی ہے۔

آئس لینڈ، کینیڈا، فرانس، آئرلینڈ اور اسرائیل میں بھی اسی طرح کے سخت ضوابط نافذ ہیں۔ یورپی پارلیمنٹ نے بھی نام نہاد نارڈک ماڈل کی طرز پر جسم فروشی پر پابندی کے حق میں بات کی ہے۔

جرمنی ميں جسم فروشی پر مجبور مرد پناہ گزين

گزشتہ ہفتے خاندانی امور، بزرگ شہریوں، خواتین اور نوجوانوں کے امور کی جرمن  وزیر لیزا پوس، جن کا تعلق گرین پارٹی سے ہے، نے کہا تھا کہ حکومت جرمنی کے سیکس ورکرز کے تحفظ کے ایکٹ میں کسی تبدیلی کا منصوبہ نہیں بنا رہی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ یہ قانون جولائی سن 2017 میں نافذ ہوا تھا اور اس کا مقصد جنسی کارکنوں کی قانونی پوزیشن کو مضبوط بنانا ہے۔ یہ قانون سن 2025 تک محض زیر غور ہے۔

وفاقی جمہوریہ جرمنی (بشمول سابق مغربی جرمنی) میں جسم فروشی کا پیشہ ہمیشہ سے قانونی رہا ہے، تاہم اس کے ساتھ ہی اسے فروغ دینا ''غیر اخلاقی'' سمجھا جاتا تھا اور سن 2002 تک یہ ایک مجرمانہ فعل سمجھا تھا۔

البتہ جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک (سابق مشرقی جرمنی) میں جنسی پیشہ غیر قانونی تھا اور سرکاری طور پر اس کا کوئی وجود بھی نہیں تھا۔

ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، کے این اے)

جرمنی میں جسم فروشی کی قانونی اجازت کیوں ہے؟