جسمانی ساخت کا مذاق؟ مگر کیوں؟
26 مئی 2019باڈی شیمنگ کے مرتکب افراد یہ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ مذاق کے طور پر کسے گئے ان کےجملے نہ صرف دوسرے کی عزت نفس کو مجروع کرتے ہیں بلکہ انہیں شدید ذہنی مسائل سے بھی دوچار کرتے ہیں۔
’’آنٹی سے ٹکر لینے کا تو کوئی سوچے ہی نہ ۔ ورنہ وہ اپنا ذمہ دار خود ہو گا۔ جیسے ہی ان کی سیٹ آئے ان کو بیٹھنے دیا جائے ورنہ ایسا نہ ہو اٹھا کر پھینکنے کا اشارہ‘‘، ’’مجھے صرف فکر ان کی ہے ۔ کسی بچی کو گرا دیا تو پتہ نہیں کیا ہو‘‘، " کمال ہو رہا ہے آپ چئیر کے سامنے ہی آرہی ہیں کسی بچی کے سامنے نہیں آ رہیں‘‘۔
چھوٹے بچوں کا ٹی وی دیکھنا کتنا خطرناک: اقوام متحدہ کی تنبیہ
بظاہر پاکستان کے ایک نجی گیم شو کے ایک سیگمنٹ میں پروگرام کے میزبان دانش تیمور کے کہے گئے یہ جملے کسی مذاحیہ اسکرپٹ کا حصہ معلوم ہورہے ہیں تاہم ان کا محور اس گیم شو میں حصہ لینے والی ایک فربہ خاتون تھیں، جنہیں ان کے وزن یا جسامت کی بنیاد پر شو کے میزبان مسلسل تضحیک کا نشانہ بناتے رہے۔ باڈی شیمنگ کا یہ واقعہ نہ تو اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی اسے آخری قرار دیا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر پروگرام کے میزبان کے اس رویے پر شدید تنقید کی گئی اور معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تاہم پروگرام کے میزبان کی جانب سے اب تک ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
دنیا کے ہر معاشرے میں دوسرے کی جسمانی ساخت کو اپنی جانب سے مقرر کیے گئے حسن کے پیمانوں میں تولنے کا رواج ہے۔ گو کہ جسمانی ساخت پر تضحیک کا نشانہ بنانا یا باڈی شیمنگ کا نشانہ مرد و خواتین دونوں ہوتے ہیں تاہم خواتین پر یہ زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایسی ہی خواتین میں شمائلہ رضوان بھی ہیں جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کے باوجود خود اعتمادی کی شدید کمی کا سامنا کرتی رہی ہیں۔ باڈی شیمنگ پر اپنے تجربے کے حوالے سے شمائلہ بتاتی ہیں، ’’میں کم عمری سے ہی اپنی گہری رنگت کے حوالے سے احساس کمتری کا شکار رہی۔ دوستوں کی محفل ہو یا خاندان کی، اکثر میری رنگت کو مزاق کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور کالی رات جیسے القبات دیے جاتے تھے۔ کبھی کوئی مجھے کسی بیوٹی ٹریٹمنٹ کے بن مانگ مشورے دیتا اور کبھی لوگ مجھے یہ بتانا اپنا فرض سمجھتے کہ میری رنگت کی خواتین کو کپڑوں کے چناو میں کس رنگ کا انتخاب کرنا چاہئے۔ کئی برس تک لوگوں کے ان رویوں کو برداشت کیا لیکن تعلیم مکمل کرنے اور ایک اعلیٰ ادارے میں ملازمت کے دوران میں نے بالاآخر یہ فیصلہ کیا کہ لوگوں کے ان رویوں کو خود پر حاوی نہیں ہونے دوں گی۔ اس فیصلے پر ثابت قدم رہنا بہت مشکل تھا تاہم ایک ماہر نفسیات کی خدمات حاصل کرتے ہوئے میں نے خود اعتمادی کو بہتر کیا اور آج میں اپنے ادارے میں ترقی کی منازل طے کرتی ہوئی ان کئی افراد سے بہتر پوزیشن پر ہوں جو مجھے تضحیک کا نشانہ بناتے رہے۔‘‘
باڈی شیمنگ کے ایسے ہی کچھ تجربے کا شکار لالہ رخ بھی رہی ہیں۔ لالہ رخ ایک غیر شادی شدہ خاتون ہیں اور اپنے وزن کے باعث پیش آنے والے کئی ہتک آمیز رویوں کے باعث شدید ذہنی تناو کا شکار ہیں ۔ اپنے تجربے کے حوالے سے وہ بتاتی ہیں، ’’مجھے اپنے بڑھتے وزن کا احساس اس وقت زیادہ ہوا جب بازار میں ایک خاتون سے میں نے کہا کہ ذرا راستہ دیجئے اور انہوں نے مجھے سر سے پیر تک دیکھنے کے بعد کہا کہ ذرا سے رستے سے کیا ہوگا۔ ایک مکمل انجان خاتون کی طرف سے یہ رویہ میرا پہلا تجربہ نہیں تھا اس کے باوجود انتہائی تکلیف دہ ضرور تھا۔ اس طرح کے جملے اپنوں اور غیروں سے ہر ملاقات میں سننے کو ضرور ملتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے نہ میرا کسی سے ملنے کو دل کرتا ہے اور نہ ہی گھر سے باہر نکلنے کا۔ ہر کوئی مجھے اپنا مشورہ دینا فرض سمجھتا ہے یہاں تک کہ ایک بار ایک رکشے والا بلا کوئی تمہید باندھے مجھے مشورہ دیتا ہے کہ بی بی چاول کم کھایا کرو۔ میری خوراک زیادہ نہیں اور میں چہل قدمی بھی باقاعدگی سے کرتی ہوں اس کے باوجود وزن کم نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر کے مطابق ماہواری سے متعلق ایک لاعلاج بیماری کے باعث میرا جسم فربہ ہے لیکن میں یہ وجہ ہر ایک کو نہیں بتا سکتی اور میرا ذاتی خیال ہے کہ چاہے یہ وجہ ہو یا کوئی اور، کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ مجھ سے اس کی وجہ پوچھے یا اس پر کوئی تبصرہ کرے ۔ لیکن شاید لوگ اپنی کمزوریاں اور خامیاں چھپانے کے لیے مجھ پر دل آزار جملے کسنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ ان کے مذاق پر میں ان کے ساتھ ہنستی ضرور ہوں لیکن اس وقت میرا دل چاہتا ہے کہ زمین پھٹے اور میں شرم سے اس میں سما جاؤں۔‘‘
دوسروں کو جسمانی بنیاد پر طنز و مذاق کا نشانہ بنانے کے اس رویے کے حوالے سے ماہر نفسیات ڈاکٹر فاریہ احمد کہتی ہیں کہ اکثر باڈی شیمنگ کا نشانہ بننے والا فرد اپنی زندگی میں بہتری لانے کے بجائے مذید ذہنی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میرے پاس بعض ایسے افراد آتے ہیں جو دوسروں کی جانب سے مذا ق کا نشانہ بنائے جانے پر شدید ڈیپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ مثلاً فربہ افراد کو ان کی جسامت کے باعث انتہائی ہتک آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باعث ہونے والا تناؤ انتہائی درجے کی عزت نفس میں کمی، ڈیپریشن اور کھانے سے متعلق غیر معمولی عادات کی وجہ بنتا ہے جو نہ صرف ان کا وزن مذید بڑھا دیتا ہے بلکہ کئی جسمانی بیماریوں کا سبب بھی بنتا ہے۔ اس طرح کے لوگ دوسروں سے کترانے لگتے ہیں، اپنے کمفرٹ زو ن یا محفوظ جگہ سے باہر نہیں آنا چاہتے اور اپنی تمام خود اعتمادی کھو بیٹھتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی کی رنگت گہری ہے تو اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ خوبصورت نہیں اور اسی وجہ سے اسے زندگی میں کوئی کامیابی آسانی سے نہیں ملے گی۔ اس طرح کے جملے جن کامقصد صرف باڈی شیمنگ ہے صرف ذہنی تناو، احساس کمتری، غیر اعتمادی، گھبراہٹ اور اپنی جسمانی ساخت کو قبول نہ کرنے جیسے ذہنی مسائل کو جنم دیتا ہے۔‘‘