1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار

عبدالستار، اسلام آباد
19 جون 2020

فیصلے سے حکومتی حلقوں میں مایوسی جب کہ وکلا کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے فیصلے سے جسٹس عیسیٰ سرخرو ضرور ہوئے ہیں لیکن خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔

https://p.dw.com/p/3e33q
Qazi Faez Isa
تصویر: Supreme Court of Pakistan

جمعے کو اپنے مختصر فیصلے میں سپریم کورٹ کے فُل بینچ نے جسٹس قاضی فائزعیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس مسترد کیا اور ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے جاری کردہ شوکاز نوٹس بھی ختم کردیا۔
صدارتی ریفرنس مسترد کرنے کا فیصلہ بینچ نے اکثریت سے کیا۔ دس رکنی بینچ کی سربراہی جسٹس عطا بندیال کر رہے تھے۔ 
تاہم بینچ کے سات ارکان نے انکم ٹیکس کے ادارے ایف بی آر کو ہدایت کی کہ اب وہ ریکارڈ کی جانچ پڑتال کرے اور اگلے ساٹھ دن کے اندر اپنی رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجے۔  
حکم میں کہا گیا کہ اگر تحقیقات میں جسٹس عیسی کے خلاف کوئی چیز ملتی ہے تو سپریم جوڈیشل کونسل اس کا از خود نوٹس لے کر کارروائی کر سکتی ہے۔
بینچ میں شامل جن تین ججز نے معاملہ ایف بی آر کو بھجوانے سے اختلاف کیا، ان میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس یحیٰی آفریدی اور جسٹس منصور علی شاہ شامل ہیں۔

عدالت میں آج کیا ہوا؟  
عدالت نے اپنا مختصر فیصلہ شام چار بجے جاری کیا۔ اس سے قبل آج صبح سرکاری وکیل نے عدالت کے سامنے پیش ہوکرایف بی آر کی طرف سے جواب داخل کرایا جس میں قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے شکایت کی تھی کہ انہوں نے اپنے ٹیکس گوشواروں میں اپنی جائیدادیں ظاہر کی تھیں لیکن پھر بھی ایف بی آرنے انہیں نوٹس جاری کیا۔ 
قاضی فائزعیسی کے وکیل منیر اے ملک نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل کے خلاف ریفرنس اس لیے دائر کیا گیا کیونکہ انہوں نے فیض آباد دھرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت اس کیس کو کسی ایک شخص کے خلاف مقدمہ نہ سمجھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایسا قانون چاہتے ہیں جس کے تحت ایک ادارہ دوسرے ادارے کی جاسوسی کرے۔ 

پرویز مشرف کو سزا، عدلیہ اور فوج آمنے سامنے

یہ بھی پڑھیے: جسٹس عیسیٰ ریفرنس: کئی حلقوں کی طرف سے مزاحمت کا عندیہ
ان کا کہنا تھا کہ حکومتی وکیل وہ رسیدیں پیش کریں جس کے ذریعے حکومت نے ان جائیدادوں کو تلاش کیا ہے۔ اس سے پتہ چلے گا کہ یہ تلاش ایسٹ ریکوری یونٹ نے کی ہے یا کسی اور نے۔ 
منیر اے ملک نے مذید کہا کہ جسٹس عیسی نے اپنی اہلیہ کی جائیداد سے کبھی اپنے آپ کو منسوب نہیں کیا لیکن موجودہ حکومت اس بارے میں ایف بی آر جانے کے بجائے سپریم جوڈیشل کونسل پہنچ گئی۔
معروف قانون دان حامد خان نے اسلامی حوالے سے دلائل دیے کہ ایک عورت جائیدادیں رکھ سکتی ہے۔ سینئر قانون دان افتخار گیلانی نے بار ایسویشنز کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا جب کہ رضا ربانی نے ایسٹ ریکوری یونٹ کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا۔ 
    
مقدمے کا پس منظر
 حکومت نے گزشتہ برس مئی میں جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ایک ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا تھا۔ یہ ریفرنس صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے بھیجا گیا تھا، جس میں یہ الزام عائد کیا گیا کہ فاضل جج نے دوہزار گیارہ اور پندرہ کے دوران اپنی بیوی اور بچوں کے نام لندن میں تین جائیدادیں لیز پر حاصل کیں، جس کو انہوں نے اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا۔ 
جسٹس عیسی نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان جائیدادوں کے بلواسطہ یا بلا واسطہ طور پر بینیفشل آونر نہیں ہیں۔ قاضی فائز عیسی نے ریفرنس کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔ اپنی پٹیشن میں قاضی فائز عیسی نے بیان کیا کہ طاقتور ریاستی عناصر کسی بھی صورت میں ان کو ان کے آئینی عہدے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ ان کا موقف تھا کہ صدر علوی نے ریفرنس دائر کرنے سے پہلے اپنی آزادانہ رائے قائم نہیں کی۔  
 پٹیشن میں استدعا کی گئی تھی کہ خفیہ ایجنسیوں ،بشمول ایف آئی اے، نے فاضل جج اور ان کے گھرانے کے بارے میں خفیہ طور پر معلومات اکھٹی کیں، جو آئین کی شق چار اور چودہ کی خلاف ورزی ہے کیونکہ نہ تو درخواست گزار اور اس کے گھرانے کو اس تفتیش کے حوالے سے اعتماد میں لیا گیا اور نہ ہی انہیں کوئی موقع فراہم کیا گیا کہ وہ کسی بھی الزام کی وضاحت کر سکیں۔ 
جسٹس عیسی نے پٹیشن میں استدعا کی تھی کہ حکومت کا ایسٹ ریکوری یونٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس محکمے کو ان کے گھرانے کی جائیدادوں کی تفتیش کے لیے تشکیل دیا گیا، اس لیے اس کیس کے حوالے سے اس محکمے نے جو بھی کام کیا اسے غیر قانونی قرار دیا جائے۔

نواز شریف کے خلاف عدلیہ نے کوئی سیاست نہیں کی، ثاقب نثار