جنسی تعلیم کی کمی اور پاکستانی نوجوانوں کے طبی مسائل
4 مئی 2014اس بارے میں جرمن خبر ایجنسی ڈی پی اے نے اسلام آباد سے اپنے ایک مفصل جائزے میں لکھا ہے کہ پاکستان میں اتوار کے روز شائع ہونے والے اخبارات اور ہفتہ وار جریدوں میں ایسے اشتہارات کی کوئی کمی نہیں ہوتی جو مردانہ قوت میں اضافے کے لیے تیار کردہ مصنوعات کی تشہیر کرتے ہیں۔ ان اشتہارات میں مردوں کی جنسی خواہشات اور ضروریات کو پورا کرنے میں مدد دینے کے لیے ہر قسم کے یقینی علاج کے دعوے اور وعدے کیے جاتے ہیں۔
قدامت پسند معاشرہ قرار دیے جانے والے پاکستان میں اب یہ امکان بھی موجود ہے کہ گاہکوں کو ایسی مصنوعات ٹیلی فون پر آرڈر دیے جانے کے بعد گھروں پر بھی پہنچا دی جاتی ہیں۔ ان میں ’مردانہ تندرستی اور سٹیمینا‘ میں اضافے کے لیے گولیوں، سپرے حتیٰ کہ چیونگ گم جیسی وہ تمام پروڈکٹس شامل ہوتی ہیں، جنہیں ’ویاگرا کے مؤثر مقامی متبادل‘ قرار دیا جاتا ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق انسانی جسم میں دوران خون کو تیز کر دینے اور دل کی دھڑکن پر اثر انداز ہونے والی ایسی باقاعدہ طور پر منظور شدہ اور غیر منظور شدہ ’طبی مصنوعات‘ جگر اور گردوں کے لیے خطرناک ہوتی ہیں۔ لیکن حالیہ برسوں کے دوران پاکستان میں ان کی فروخت میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں گاہکوں کو ایسی مصنوعات کی ان کے گھروں تک ترسیل کرنے والی ایک کمپنی کے مالک اویس احمد کا کہنا ہے کہ زیادہ تر خریدار ایسی پروڈکٹس کے طویل المدتی اثرات کے بارے میں کچھ سوچتے ہی نہیں۔ اویس احمد کے بقول ان کی کمپنی کے ’زیادہ تر گاہک ایسے نئے شادی شدہ نوجوان مرد ہوتے ہیں، جو جنسی صحت کے نام پر ہر وہ پروڈکٹ خرید لیتے ہیں جس کی مارکیٹنگ رنگا رنگ انداز میں کی جائے‘۔
اسلام آباد کے ایک معروف یورولوجسٹ منور خورشید کہتے ہیں کہ ایسی مصنوعات تیار کرنے والے ادارےعام خریداروں میں جنسی صحت سے متعلق مناسب حد تک بنیادی معلومات کی کمی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ منور خورشید گزشتہ چار عشروں سے بھی زائد عرصے سے ایسے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں جو طبی نوعیت کی جنسی پیچیدگیوں کا شکار ہوتے ہیں۔
منور خورشید نے ڈی پی اے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ایک عام سی بات ہے کہ کئی لوگوں کو اپنی جنسی زندگی کے آغاز پر خاص طرح کے طبی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن لوگ یکدم بہت پریشان ہو جاتے ہیں۔ زیادہ تر متاثرہ افراد، خاص طور پر نوجوان مرد یہ نہیں سوچتے کہ ایسے مسائل کا سامنا ہر کسی کو زندگی میں کسی نہ کسی حد تک کرنا پڑتا ہے۔ وہ بس اپنی پریشانی کے فوری حل کے خواہش مند ہوتے ہیں اور معاملات میں بتدریج بہتری کے لیے انتظار بالکل نہیں کرنا چاہتے۔‘‘
یورولوجسٹ منور خورشید کے مطابق اس صورت حال کا ذمہ دار وہ قدامت پسند پاکستانی معاشرہ ہے جو طبی ضروریات کے حد تک بھی مناسب جنسی تعلیم کی سہولت فراہم کرنے میں اپنے ہی لوگوں کی کوئی مدد نہیں کرتا۔
ایک اور پاکستانی ڈاکٹر عمران صادق چوہدری کہتے ہیں کہ معیاری جنسی تعلیم تک رسائی کا نہ ہونا پاکستان کے کئی ملین نوجوانوں کی صحت پر منفی جسمانی اور نفسیاتی اثرات کا سبب بن رہا ہے۔
ڈاکٹر چوہدری کراچی میں اپنا ایک کلینک بھی چلاتے ہیں اور ان کی اپنی ایک ویب سائٹ بھی ہے، جس کی مدد سے نوجوانوں کو جنسی پیچیدگیوں سے بہتر طور پر آگاہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انہوں نے ڈی پی اے کو بتایا، ’’یہ اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ اس کی وسعت ناقابل بیان ہے۔ ایسے نوجوانوں کو جب مدد کی اشد ضرورت ہوتی ہے تو انہیں کوئی بھی مناسب مشورہ دینے والا دستیاب نہیں ہوتا۔‘‘
اس کا نتیجہ زیادہ تر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں ڈپریشن اور نفسیاتی بے چینی کی صورت میں نکلتا ہے۔ ڈاکٹر چوہدری کے بقول ان کے زیادہ تر مریضوں کی عمریں 14 اور 30 برس کے درمیان ہوتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نوجوان پاکستانیوں کو طبی نوعیت کے جتنے بھی جنسی مسائل کا سامنا رہتا ہے، ان میں سے ’کم از کم 70 فیصد صرف اسکولوں میں مناسب حد تک جنسی تعلیم کی مدد سے ختم‘ کیے جا سکتے ہیں۔
سب سے زیادہ آبادی والے صوبہ پنجاب میں حکومت نے گزشتہ برس چھٹی جماعت کے بچوں کے لیے تیار کردہ بیالوجی کی اس کتاب پر پابندی لگا دی تھی، جس میں اس بارے میں وضاحت کی گئی تھی کہ انسانوں میں افزائش نسل کا نظام کیسے کام کرتا ہے۔