جنسی جرائم چھپانے پر آسٹریلوی آرچ بشپ کو قید کی سزا
3 جولائی 201867 سالہ فیلپ ولسن کے بارے میں جیل حکام اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ انہیں جیل میں رکھنے کی بجائے ان کے گھر پر ہی حراست میں رکھا جائے۔ وہ آئندہ ماہ دوبارہ عدالت میں بھی پیش ہوں گے جس میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا وہ قید کی سزا کاٹیں گے یا نہیں۔
ولسن کو سزا سنانے والے نیو کاسل کورٹ کے مجسٹریٹ رابرٹ اسٹون نے اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا، ’’مجرم کی طرف سے کسی قسم کی ندامت یا شرمساری کا اظہار نہیں کیا گیا۔‘‘
فیلپ وِلسن پر رواں برس مئی میں فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک اور پادری جیمز فلیچر کی طرف سے بچوں کے ساتھ کی جانے والی جنسی زیادتی کے بارے میں پولیس کو مطلع نہیں کیا تھا۔ حالانکہ انہیں 1976ء میں جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والے دو بچوں نے اس بارے میں آگاہ بھی کیا تھا۔
جیمز فلیچر کو 2004ء میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے نو مختلف جرائم میں قصور وار پایا گیا تھا۔ سن 2006ء میں دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے ان کی موت بھی دوران قید جیل میں ہی ہوئی تھی۔
فیلپ وِلسن مقدمے کی تمام کارروائی کے دوران اس بار پر مصر رہے ہیں کہ وہ اس بارے میں بے قصور ہیں۔ ان کے وکلاء نے بھی کہا ہے کہ ولسن کو اس بات کی خبر نہیں تھی کہ فلیچر نے ایک بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔
وِلسن کو ملنے والی سزا امریکا میں اسی طرح کے ایک مقدمے میں دی جانے والی سزا کے مقابلے میں کہیں کم ہے اور انہیں فوری طور پر جیل بھی نہیں بھیجا گیا ہے، مگر اس کے باجود زیادتی کا نشانہ بننے والوں نے اس عدالتی فیصلے کو سراہا ہے۔
فلیچر کی زیادتی کا نشانہ بننے والے پیٹر کریغ نے سڈنی کے شمالی علاقے نیوکاسل کی عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’یہ دنیا بھر کے لیے ایک اہم مقدمہ ہے۔۔۔ سزا ملنا ضروری ہے۔‘‘
آسٹریلیا کی کیتھولک بشپ کانفرنس کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسے اس بات کی امید ہے کہ یہ سزا ان افراد کے لیے باعث اطمینان ہو گی جو ایسے جرائم کا نشانہ بنے۔ کیتھولک بشپ کانفرنس آسٹریلیا کا اعلیٰ ترین کیتھولک ادارہ ہے اور فیلپ وِلسن اس کانفرنس کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔
ا ب ا / ش ح (روئٹرز)