جنسی زیادتیوں کے نو ماہ، روہنگیا خواتین مائیں بننے لگیں
17 مئی 2018خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ بنگلہ دیش کے کوکس بازار میں امدادی کارکن ایسی روہنگیا خواتین اور لڑکیوں کو تلاش کر رہے ہیں، جو نو ماہ قبل میانمار کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے جنسی زیادتیوں کی وجہ سے حاملہ ہو گئی تھیں۔ یہ کیمپ حاملہ خواتین کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ قرار دیا جاتا ہے۔ خدشہ ہے کہ ’بدنامی اور شرم‘ کی وجہ سے ایسی خواتین چھپ رہی ہیں، جس کی وجہ سے ان کی جان کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
میانمار کی فوج بلیک لسٹ کی جا سکتی ہے
میانمار میں روہنگیا باشندوں کا قتل، ’فوجی اعتراف محض آغاز‘
جنسی حملوں کے شکار روہنگیا بچے بنگلہ دیش پہنچ کر بھی خوف زدہ
میانمار کی مسلم اقلیتی کمیونٹی روہنگیا سے تعلق رکھنے والی مہاجر خاتون توسمینارہ نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ وہ ایسی خواتین اور لڑکیوں کا پتہ چلا رہی ہیں، جو نو ماہ قبل جنسی زیادتیوں کی وجہ سے حاملہ ہو گئی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایسی خواتین اور ان کے اہل خانہ کو یقین دلایا جا رہا ہے کہ اگر وہ زچگی کے لیے مناسب طبی امداد حاصل کرتی ہیں تو ان کی شناخت مکمل طور پر خفیہ رکھی جائے گی۔
میانمار میں گزشتہ برس اگست اور ستمبر کے مہینوں میں ملکی سکیورٹی فورسز نے راکھین میں روہنگیا مسلم کمیونٹی کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تھا، جس کی وجہ سے کم ازکم سات لاکھ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کی طرف مہاجرت پر مجبور ہو گئے تھے۔
بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مسلمانوں نے الزام عائد کیا تھا کہ میانمار کی فوج نے ان کی خواتین کو وسیع پیمانے پر جنسی زیادتیوں کا نشانہ بھی بنایا تھا۔ تاہم یہ معلوم نہیں کہ ان واقعات کی وجہ سے کتنی خواتین یا لڑکیاں حاملہ ہوئی تھیں۔
تاہم اقوام متحدہ اور ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے اہلکاروں نے بتایا ہے کہ اس سال بنگلہ دیش کے مہاجر کیمپوں میں کم ازکم اڑتالیس ہزار خواتین بچوں کو جنم دیں گی۔
یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق کوکس بازار کے مہاجر کیمپوں میں اب تک سولہ ہزار بچے پیدا ہو چکے ہیں، جن میں سے صرف تین ہزار طبی امدادی مراکز میں پیدا ہوئے۔ بتایا گیا ہے کہ کوکس بازار کے مہاجر کیمپوں میں یومیہ ساٹھ بچوں کی پیدائش ہو رہی ہے۔
روہنگیا اقلیتی برادری کے ایک رہنما عبدالرحیم نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ وہ بذات خود ایسی دو خواتین کو جانتے ہیں، جنہیں میانمار کے فوجیوں نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا اور وہ حاملہ ہو گئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ خواتین آئندہ کچھ مہینوں میں مائیں بن جائیں گی۔ عبدالرحیم نے مزید کہا کہ کوکس بازار کے کیمپوں میں ایسی متعدد خواتین موجود ہیں، جو عنقریب مائیں بننے والی ہیں۔ اس تناظر میں انہوں نے کہا، ’’میانمار کے فوجیوں نے ان خواتین کو جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنایا تھا۔ یہ بچے ان کے جرائم کا ثبوت ہیں۔‘‘
دوسری طرف کئی ماہرین نے ایسے خدشات کا اظہار بھی کیا ہے کہ روہنگیا گھرانے ٹین ایج بچیوں کے حمل کو چھپانے کی خاطر ان کی شادیاں کر سکتے ہیں یا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ پیدائش کے بعد ان بچوں کو کہیں لاوراث چھوڑ دیا جائے۔
ادھر میانمار کی فوج ایسے الزامات کو مسترد کرتی ہے کہ اس کی طرف سے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مسلم اقلیتی روہنگیا باشندوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہو یا ان کی خواتین کے ساتھ کوئی جنسی زیادتیاں کی گئی ہوں۔
ع ب / م م / اے ایف پی