جنوبی افریقہ میں بیف مصنوعات میں گدھے کے گوشت کی ملاوٹ
27 فروری 2013جنوبی افریقہ کی معروف اسٹیلن بوش یونیورسٹی کے مطابق مارکیٹوں میں دستیاب بیف برگر اور ساسیجز (Sausages) میں روایتی اعتبار سےگائے کا گوشت ہونا چاہیے تھا لیکن ان میں ملاوٹ کرنے والوں نے گدھے کے گوشت کے ساتھ ساتھ بھینس اور بکری کا گوشت بھی شامل کرنے سے گریز نہیں کیا۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپ کے خاصے ملکوں میں بیف برگر اور دوسری ایسی مصنوعات میں گھوڑے کے گوشت کی ملاوٹ کا اسکینڈل ان دنوں پھیلا ہوا ہے۔
اسٹیلن بوش یونیورسٹی کے لیبارٹی ٹیسٹوں کے بعد بتایا گیا کہ بیف برگر اور ساسیجز کی دو تہائی پروڈکٹس ملاوٹ شدہ گوشت سے تیار کی گئی تھیں۔ یونیورسٹی کے اینمل سائنسز کے پروفیسر لُوورینس سی ہوفمین (Louwrens C. Hoffman) کا کہنا ہے کہ جنوبی افریقہ میں بیف پروڈکٹس پر لیبل پر غلط معلومات کا اندارج کر کے ایسی کمپنیوں نے اقتصادی، اخلاقی، مذہبی اور صحت کے معاملات کو متاثر کیا ہے۔ اسی یونیورسٹی میں غیر ممالک سے برآمد شدہ بیف پروڈکٹس کے ٹیسٹوں میں گھوڑے کے گوشت کی آمیزش نہیں دستیاب ہوئی ہے۔
پروفیسر ہوف مین کا کہنا ہے کہ گوشت پروڈکٹس کی سخت نگرانی کے نظام کے نہ ہونے کی وجہ سے ایسی ملاوٹ کا عمل سامنے آیا ہے۔ جنوبی افریقہ میں لیبل کے بغیر مطابق کسی بھی خوراک کی فروخت قابل سزا ہے لیکن اس پر مناسب انداز میں عمل پیرا نہ ہونے کو بھی ہوف مین نے ملاوٹ کی وجہ خیال کیا ہے۔ ہوف مین نے اس پر زور دیا کہ ملاوٹ کرنے کی حوصلہ شکنی کے قوانین کا نفاذ ہی اس عمل میں رکاوٹ کا سبب بن سکتا ہے۔
اسٹیلن بوش یونیورسٹی کی لیبارٹری میں 139 بیف کے نمونوں کے ڈی این اے (DNA) ٹیسٹ کیے گئے۔ بیف کی یہ پروڈکٹس دوکانوں اور گوشت فروشوں کے اڈوں سے حاصل کی گئی تھیں۔ ان 139 نمونوں میں سے 68 فیصد یعنی چورانوے سے زائد سیمپلز ملاوٹ شدہ تھے۔ پروفیسر ہوف مین کے مطابق ان نمونوں میں غیر روایتی جانوروں کا گوشت مختلف مقدار میں شامل تھا اور ان جانوروں میں گدھے، پالتو بھینسوں اور بکریوں کے گوشت کے نمونے دستیاب ہوئے۔ لیبارٹری ٹیسٹوں کے دوران بعض بیف کی پروڈکٹس میں سویا سبزی اورگلوٹین کے اجزاء کے ساتھ ساتھ خشک گوشت کے اجزا بھی شامل تھے۔
جنوبی افریقہ کی اسٹیلن بوش یونیورسٹی کی ریسرچ رپورٹ یورپی جریدے برائے فوڈ کنٹرول میں شائع کی گئی ہے۔ پروفیسر ہوف مین کے مطابق انہوں نے ملاوٹ کے مخالف افراد کی حمایت سے قانون سازی کروائی تھی لیکن اس پر مکمل طور پر عمل پیرا نہیں کیا جا سکا ہے۔ ہوف مین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب وہ ملاوٹ کے خلاف قانون سازی کی مہم جاری رکھے ہوئے تھے تب انہیں گوشت کی پراڈکٹس تیار کرنے والی کمپنیوں کی مخالفت کا بھی سامنا تھا۔ دوسری جانب جنوبی افریقہ میں سرخ گوشت فروخت کرنے والی (Association Red Meat Producers' ) ایسوسی ایشن کے صدر گیرہارڈ شٹے (Gerhard Schutte) کا کہنا ہے کہ ملاوٹ کرنے والوں کو سخت سزا دینی چاہیے کیونکہ وہ تنظیم کے اراکین کی پراڈکٹس کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔
(ah/at(AP,AFP