جنوبی ایشیا اور جرمن پریس
20 نومبر 2008جرمن اخبار Frankfurter Allgemeine بھارت کی اقتصادی ترقی کی شرح کے حوالے سے لکھتا ہے کہ پچھلے دس سال کے مقابلے میں اس وقت یہ شرح نصف حد تک کم ہو چکی ہے۔ بھارتی صنعت اس بحران سے نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ ملک کے چالیس بڑے صنعتی خاندانوں کوسٹاک مارکیٹوں میں مندی کی وجہ سے اس سال تقریباً 200 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا ۔
جرمن سیاستدان کسی اور ملک کا اتنا رخ نہیں کرتے جتنا بھارت کا۔ جرمنی کا مقبول ہفت وار جریدہ " Der Spiegel" اس بارے میں لکھتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے جرمن سیاستدانوں کو انڈیاجانے کا بخار چڑھا ہےجبکہ اس کے برعکس انڈین سیاستدانوں کو جرمنی جانے کا کوئی ایسا شوق نہیں۔ حکومت دہلی کی تمام تر توجہ اہم اور بڑے ساتھی ملکوں مثلاً امریکہ، روس یا چین کی طرف ہے۔ جر من حکومت کو امید نہیں کہ بڑے عالمی معاملات میں بھارت اس کی حمایت کر سکتا ہے، حالانکہ جرمنی نے بھارت کو بین ا لاقوامی سطح پر ایک ایٹمی طاقت تسلیم کرانے کی کوششوں میں بھرپور ساتھ دیا تھا۔
پاکستانی صدر آصف علی زرداری اس وقت کئی طرف سے دباؤ کا شکار ہیں۔ فرانسیسی اخبار LE Monde کا جرمن اڈیشن اس بارے میں لکھتا ہے۔
زرداری کو ایک طرف امریکہ کے مطالبات پر پورا اترنا ہے تودوسری طرف اندرون ملک انہیں فوج کی طاقت کے سامنے ثابت قدمی دکھانی ہےپھر دہشت گردی کی لہرکا مقابلہ کرنا ہے اور قبائلی علاقوں کی شورش پر قابو پاناہے۔ ان سب باتوں کی وجہ سے ملک کے تین بڑے مسائل سے عہدہ برا ہونے کے لئے ان کے پاس کوئی موثر قدم اٹھانے کی گنجائش کم ہے۔ پہلا مسئلہ طویل فوجی حکومت کے بعد جمہوریت کو فروغ دینا، دوسرا ہے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ اور تیسرا ہے اقتصادی بحران پر قابو پانا۔ امریکہ نے اگرچہ مزید مالی امداد کا وعدہ کیا ہے لیکن اس سے پاکستان کے مسائل حل نہیں ہو پائیں گے۔
بین ا لا قوامی مالیاتی فنڈ پاکستان کو سات اعشاریہ چھ ارب ڈالر مہیا کر رہا ہے۔ اس بارے میں جرمن اخبار Berliner Zeitung لکھتا ہے۔
امریکہ پاکستان کا اس لئے ساتھ دے رہا ہے کہ اسے افغانستان جنگ میں کامیابی کے لئے پاکستان کی ضرورت ہے۔ نہ تو ایران اور نہ ہی اُزبکستان امریکہ کی اس طرح سے مدد کر سکتے ہیں جس طرح پاکستان۔ دوسری جانب اسلام آبادکو بھی اپنے قبائلی علاقوں میں امن قائم کرنا ہو گا جو اسی وقت ممکن ہے جب افغانستان کی جنگ ختم ہو۔