1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی ایشیا اور جرمن پریس

26 اپریل 2010

جنوبی ایشیا کے حالات و واقعات پر جرمن زبان کے اخبارات و جرائد میں شائع ہونے تبصرے اور ادارتی نوٹس۔

https://p.dw.com/p/N65o
تصویر: AP

معروف جرمن ہفت روزہ DIE ZEIT نے بھارتی سياست کے سب سے بڑے اندرونی دشمن ماؤ نواز باغيوں پر تبصرہ کيا ہے۔ جريدہ لکھتا ہے کہ يہ باغی کسانوں يا مزدوروں کو نہيں بلکہ قديم باشندوں يعنی آدیواسیيوں کو اپنی پارٹی کی نئی بنياد بنا رہے ہيں۔ وہ آزادعلاقے قائم کررہے ہيں اور خود اپنے اسکول تعمير کررہے ہيں۔ تاہم اصولی طور پر وہ پوليس کی گرفت سے بچنے کے لئے چھپتے پھر رہے ہيں۔

دہلی کے تنازعات کے تجزيے کے غير جانبدار انسٹيٹيوٹ کے، دہشت گردی کے شعبے کے ماہر اجل ساہنی کا کہنا ہے کہ اديواسی نچلی ذات سے تعلق رکھتے ہيں اوراس طرح وہ ماؤ نواز باغيوں کا آسان شکار ہيں۔

DER ZEIT کے رپورٹر نے بھارت ميں ماؤنواز باغيوں کی گوريلا جنگ کے ٹھکانوں کا مشاہدہ کيا اور اُس نے قديم باشندوں یا اديواسيوں سے بات چيت بھی کی، جن کے علاقوں ميں ماؤ باغيوں اور بھارتی پوليس کے نيم فوجی دستوں کے درميان خونی جنگ جاری ہے۔ ايک اديواسی نے رپورٹر کو بتايا: ’’پوليس ہميں مسلسل تنگ کرتی رہتی ہے۔ ميرے بچپن ہی سے وہ مجھے اور ميرے والد کوباقاعدگی سے مارتےپيٹتے رہتے ہيں۔ وہ ہم پر بار بار ماؤنوازوں کے دوست ہونے کا الزام لگاتے ہيں۔ ماؤ باغنوں کا سلوک اتنا برا تو نہيں ہے ليکن وہ بھی جب آتے ہيں تو ہمارا کھانا کھا جاتے ہيں۔ بسا اوقات يہ بھی ہوتا ہے کہ بعض، پہلے ماؤ باغيوں کے طور پر ہمارا کھانا چٹ کرجاتے ہيں اور بعد ميں وہی، پوليس کی وردی ميں آکر ہميں مار مار کر لہو لہان کرديتے ہيں۔‘‘ زيادہ تر اديواسيوں کا يہی حال ہے۔ وہ اس تنازعے ميں دو فريقوں کے درميان پس رہے ہيں۔

Deutsche Presse
جرمن اخباراتتصویر: AP

بھارت کے نائب وزير خارجہ ششی تھرور کو اس لئے مستعفی ہونا پڑا ہے کيونکہ انہوں نے اپنی مبينہ شريک حيات کو ايک پروفيشنل کرکٹ ٹيم کے حصص دلائے تھے جس کے قيام ميں خود انہوں نے بھی ہاتھ بٹايا تھا۔اخبار TAGESZEITUNG لکھتا ہے:

وہ عالمگيريت کے حامی اور آخر ميں حکمران کانگريس پارٹی کی آنکھ کا تارہ تھے۔ وہ بھارت کے کامياب ترين اديبوں ميں شمار ہوتے ہيں اور اقوم متحدہ کے سکريٹری جنرل کے عہدے تک پہنچنے والے تھے۔ بھارتی ٹيلی وژن اسٹيشن NDTV نے ابھی مارچ ہی ميں اُنہيں سال رواں کا نيو ايج سياستدان چنا تھا۔ اُن کے twitter کے رجسٹرڈ پڑھنے والوں کی تعداد 7 لاکھ ہے۔ اُن ميں بھارتی جمہوريہ کے بانی جواہر لال نہرو کی جھلک نظر آتی تھی ۔ ليکن اب نائب وزير خارجہ کوکرکٹ اور ايک خاتون سے عشق کے باعث ٹھوکر لگی ہے۔ اب وہ بہت پستی ميں گرچکے ہيں: ’’وہ بھارت ميں سياسی زندگی کے سب سے زيادہ عام ہنر، کرپشن ميں مہارت نہيں رکھتے تھے۔‘‘

پاکستان کے صدر آصف زرداری نے ايک جنبش قلم کے ساتھ دو فوجی آمروں کے ورثے کو مٹا ديا ہے اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے خود اپنے اختيارات بھی کھو ديے ہيں۔ اخبار BERLINER ZEITUNG تحرير کرتا ہے:

زرداری نے ايک ایسی آئينی ترميم پر دستخط کر ديے ہيں جس کے تحت تقريباً تمام انتظامی اختيارات صدر سے وزير اعظم کو منتقل ہوگئے ہيں۔ سن 2008ء کے شروع سے ملک کی ابتر اقتصادی حالت اور سول حکومت کی خراب کارکردگی کی وجہ سے بہت سے ميڈيا دوبارہ فوجی حکومت کے حق ميں آواز بلند کررہے ہيں۔ تاہم حاليہ آئينی ترميم کے بعد، نصف عرصے تک ملک پر حکمرانی کرنے والی فوج اقتدار سنبھالنے کا وہ آسان حربہ استعمال نہيں کرسکے گی جسے وہ سن 80 کے عشرے کے اواخر کے بعد سے کئی مرتبہ کام ميں لا چکی ہے۔ اس طرح آئينی ترميم کے بعد زرداری کے، سن 2014ء تک اپنے عہدے کی مدت مکمل کرنے کے امکانات ميں اضافہ ہوگيا ہے کيونکہ اب وہ ملکی سياستدانوں کے لئے کوئی حقيقی خطرہ نہيں رہے۔ اس کے باوجود زرداری، پس پردہ رہتے ہوئے سياست پر اثر انداز ہونے کی کوشش جاری رکھھ سکتے ہيں۔

Zeitungstitel
تصویر: AP

دنيا بھر ميں يہ فکر بڑھتی جارہی ہے کہ جوہری ہتھيار بنانے کے قابل مواد دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے ۔ اخبار NEUE ZÜRCHER ZEITUNG لکھتا ہے کہ اس تناظر ميں سياسی طور پرغير مستحکم پاکستان اپنے ايٹمی اسلحہ خانے کی وجہ سے سب سے زيادہ کمزور ہے۔ اخبار مزيد لکھتا ہے:

’’اگرچہ پچھلے برسوں کے دوران پاکستان نے اپنے جوہری اسلحے کی حفاظت کے انتظامات کو بہت زيادہ سخت کر ديا ہے اور اُس نے ايک خاص اسٹريٹيجک پلان ڈويژن بھی تشکيل ديا ہے جو 10 ہزار چيدہ اور خصوصی تربيت يافتہ دستوں پر مشتمل ہے، ليکن ماہرين کو اس پر شبہ ہے کہ يہ دستے خطرے کا مکمل طور پر تدارک کرسکتے ہيں۔ ہارورڈ کے پروفيسر اور ايٹمی ہتيھاروں کے عدم پھيلاؤ کے ماہر ميتھيوبن نے ايک رپورٹ ميں لکھا ہے کہ خود کارکنوں کے ذريعے يا دہشت گردانہ حملے کے نتيجے ميں جوہری مادے کے چرائے جانے کا حقيقی خطرہ اب بھی موجود ہے۔ اگر دہشت گرد انتہائی سخت حفاظتی انتظامات کے باوجود راولپنڈی ميں آرمی ہيڈ کوارٹر پر حملہ کرسکتے ہيں تو پھر ملک بھر ميں پھيلے ہوئے ايٹمی ری ايکٹر، تجربے گاہيں اور جوہری اسلحے خانے بھی حملہ آوروں سے محفوظ نہيں ہيں۔

اخبار Tagesspiegel تحرير کرتا ہے کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق کيانی پاکستان کی خارجہ سياست کی کليدی شخصيت بنتے جارہے ہيں کيونکہ حال ہی ميں واشنگٹن ميں جوہری سلامتی کی سربراہی کانفرنس ميں وفد کی قيادت صدر زرداری نہيں بلکہ جنرل کيانی کر رہے تھے۔ اخبار لکھتا ہے کہ خفيہ سروس کے سابق سربراہ کيانی نے ايٹمی ملک پاکستان کی خارجہ پاليسی عملی طور پر اپنے ہاتھ ميں لے لی ہے۔ اگرچہ اسے ايک خفيہ بغاوت کہنا صحيح نہيں ہوگا تاہم اس کی علامات موجود ہيں کہ واشنگٹن کيانی پر زور دے رہا ہے کہ وہ معاملات اپنے ہاتھ ميں لے ليں۔ اس کی ايک وجہ تو يہ ہے کہ امريکی وہ بات سمجھ چکے ہيں، جسے جنوبی ايشيا ميں ہر کوئی جانتا ہے، يعنی يہ کہ پاکستان ميں اصل اختيار فوج ہی کے ہاتھ ميں ہے۔ دوسرے يہ کہ سول حکومت کے ساتھ امريکہ کا صبر کا پیمانہ لبريز ہوتا نظر آتا ہے۔ حقيقت يہ ہے کہ يہ حکومت ابھی تک يہ ثابت نہيں کرسکی ہے کہ وہ ملک کو ان مشکل حالات سے نکال سکتی ہے۔ زيادہ تر سياستدان سیاست کو ايک کاروبار سمجھتے ہيں۔ صدر زرداری کی حيثيت صرف رسمی حد تک رہ گئی ہے۔ وہ، دہشت گردی اور دوسرے مسائل پر توجہ دينے کے بجائے اپنے مزاحيہ خاکوں کی ممانعت کو ترجيح ديتے ہيں۔ دوسری طرف گہرے غوروفکر کے عادی اور حکمت عملی کی مہارت رکھنے والے جنرل کيانی ہميشہ سے زيادہ مقبول ہيں۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: عاطف بلوچ