جنوبی ایشیا کے حالات و واقعات اور جرمن پریس
6 مارچ 2009اخبارٹاگنس اشپيگل لکھتا ہے’’اس زبردست حملے سے يہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی رياست کس قدر کمزور ہے۔ کئی ملين کی آبادی تک کے شہر ميں وہ انسانوں کی حفاظت کرنے کے قابل نظر نہيں آتی۔ يہ واضح تھا کہ کرکٹ کے کھلاڑی دہشت گردوں کا اولين ہدف تھے۔ اس کے باوجود انہيں حملہ کرنے ميں کاميابی ہوگئی۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی بس بلٹ پروف تک نہيں تھی۔‘‘
اخبار زيود دوئچے سائٹنگ تحریر کرتا ہے ’’پاکستانی حکومت کئی ہفتوں سےمسلسل زيادہ بے چين ہوتی ہوئی عالمی برادری کو يہ يقين دلانے کی کوشش کررہی ہے کہ وہ ملک ميں انتہا پسندوں کے خلاف سنجيدگی سے کارروائی کررہی ہے۔ اب مشکوک حلقوں کو اپنے خيال کی تصدیق ہوتی نظر آتی ہے کہ اسلام آباد کے اقدامات ناکافی ہيں۔‘‘
نوئے سيورشرسائٹنگ تحريرکرتا ہے’’ پنجاب، پاکستان کا سياسی اور اقتصادی مرکزہے اور اسے نسبتا محفوظ سمجھا جاتا ہے ليکن حاليہ عرصے ميں وہاں وارداتوں ميں اضافہ ہورہا ہے۔ مبصرين کو انديشہ ہے کہ دہشت گردی، شمال مغربی پاکستان سے پنجاب اوراس طرح رياست کے اعصابی مرکز تک پھيل سکتی ہے۔‘‘
اخبار برلينر سائٹنگ لکھتا ہے کہ سپريم کورٹ نے نواز شريف اوران کے بھائی شہباز کو سياست کے لئے نا اہل قرار ديا ہے اور يوں، جمہوريت کی واپسی کے ايک سال بعد، پاکستان کو پھر سياسی عدم استحکام کا خطرہ ہے۔ طالبان، بم دھماکے اوراقتصادی بحران ہی کيا کم تھے کہ اب ملک کو صدر زرداری اوراپوزيشن قائد نوازشريف کے درميان طاقت آزمائی کا خطرہ بھی ہے۔ نوازشريف، اس ايٹمی رياست کو مفلوج کر دينےکی صلاحيت رکھتے ہيں۔‘‘
اخبارنوئے سيورشر سائٹنگ لکھتا ہے ’’يہ صورتحال، افغانستان اور پاکستان کے لئے ايک نئی حکمت عملی کی تلاش ميں مصروف امريکی صدر اوباما کے لئے درد سری کا باعث ہوگی۔‘‘
اخبارٹاگس سائٹنگ لکھتا ہے ’’ بنگلہ ديش، سرحدی محافظوں کی بغاوت کے بعد آہستہ آہستہ ہی اس صدمے سے نکل رہا ہے۔ وزيراعظم حسينہ واجد نے بغاوت ميں حصہ لينے والے ايک ہزار افراد پر مقدمہ چلانے کا اعلان کيا ہے۔ فوج کے نمائندوں نے شبہ ظاہر کيا ہے کہ بنگلہ ديش رائفلز کے سپاہيوں نے اس کا منصوبہ ايک عرصہ پہلے ہی بنا ليا تھا اورانہوں نے تنخواہوں ميں اضافے کے جھگڑے کو اپنے افسران پر حملے کے لئے صرف بہانے کے طور پراستعمال کيا۔‘‘