جنوبی ایشیا کے حالات و واقعات، جرمن پریس کی نظر میں
7 اگست 2011گزشتہ دنوں چین کے مغربی خطے سنکیانگ میں شہریوں پر حملوں میں تقریباً اٹھارہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ چینی حکام کے مطابق ان واقعات میں ملوث افراد نے پاکستان میں تربیت حاصل کی تھی۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ کون ان حملوں میں ملوث تھا اور اس نےکہاں تربیت حاصل کی تھی، حقیقت یہ ہے کہ سنکیانگ میں آباد زیادہ تر مسلمانوں کو شکایت ہے کہ بیجنگ حکومت ان کے ساتھ امتیازی سلوک برت رہی ہے۔ جرمن روزنامہ فرانکفرٹر الگمائنے لکھتا ہے، شہر کاشغر کی حکومت نے پیر کے روز ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہنگامہ آرائی میں ملوث کئی مشتبہ افراد نے دوران تفتیش ایک تحریری بیان دیا ہے، جس کے مطابق دہشت گرد تنظیم ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے سربراہ نے پاکستان میں دہشتگردی کی تربیت حاصل کی تھی۔ مزید یہ کہ اسے وہاں بم اور دیگر اسلحہ بنانا سکھایا گیا۔ اس تنظیم کے ارکان انتہاپسند مذہبی رجحانات رکھتے ہیں۔ انہوں نے بھی اسی دوران اپنے سربراہ سے بارودی مواد کو استعمال کرنا سیکھا اور دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کی۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ ان افراد کا ہدف چین کی قومی سلامتی کو نقصان پہنچانا اور سنکیانگ کو چین سے علیحدہ کرنا ہے۔ جلا وطن تنظیموں کے مطابق پرتشدد کارروائیاں چین کی جانب سے مسلم اقلیت کے خلاف روا رکھے جانے والے سلوک کا رد عمل ہیں۔
برلن سے شائع ہونے والے اخبار ٹاگیز سائٹنگ ’ Taz‘ کے مطابق چین کی جانب سے پاکستان پر الزامات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں، جب پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ بیجنگ کے دورے پر تھے۔ اخبار لکھتا ہے کہ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات کس نوعیت کے ہیں۔ چین اور پاکستان کے تعلقات گہرے بھی ہیں اور پیچیدہ بھی۔ بیجنگ حکومت اپنے اس پڑوسی کو جنوبی ایشیا میں ایک اہم ساتھی تصورکرتی ہے لیکن ساتھ ہی وہ پاکستان میں انتہاپسند قوتوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے خائف بھی ہے۔ امریکہ کی جانب سے دفاعی امداد میں کمی کے اعلان کے بعد اسلام آباد حکام پر امید نگاہوں سے چین کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ دوسری جانب چین بھی چاہتا ہے کہ پاکستان انسداد دہشت گردی کے تناظر میں مؤثر اقدامات کرے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ نے اپنے دورہ بیجنگ کے دوران وعدہ کیا کہ دہشت گردی کےتربیتی مراکز کو ختم کرنے کے حوالے سے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے حوالے سے گزشتہ دونوں انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے 132صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی۔ اس رپورٹ میں پاکستانی فوج ، خفیہ ایجنسی اور نیم فوجی دستوں کو صوبے میں لوگوں کو اغوا کرنے اور انہیں قتل کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ سوئس اخبار نوئے زیورشر سائٹنگ تحریرکرتا ہے کہ یہ الزامات نئے نہیں ہیں۔ 2004ء میں کئی سو مبینہ علیحدگی پسند خفیہ طور پر لاپتہ ہو گئے تھے، جن میں بہت سے طلبا بھی تھے۔ اس واقعے کے بعد سے اس صوبے میں علیحدگی پسندوں کی جانب سے اسلام آباد کے خلاف کارروائیوں میں ایک دم تیزی آ گئی۔ اخبار کے مطابق ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سکیورٹی ایجنسیوں کو ہر طرح کی چھوٹ حاصل ہے۔ بلوچستان کی آبادی صرف آٹھ ملین ہے۔ پاکستانی حکومت اس صوبے میں موجود قدرتی وسائل سے فائدہ حاصل کرتی ہے۔ اس میں قدرتی گیس سر فہرست ہے، جو سندھ اور پنجاب کے علاوہ اسلام آباد تک کو فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود بھی بلوچستان دیگر صوبوں کے مقابلے میں پسماندہ ہے۔ اس کی ایک وجہ جہاں صوبے کا قبائلی نظام ہے وہیں دوسری جانب قدرتی وسائل سے حاصل ہونے والی وہ رقم بھی ہے، جس کا زیادہ تر حصہ اسلام آباد کو چلا جاتا ہے اور بلوچ علیحدگی پسند اسی معاملے کو بنیاد بنا کر مرکز کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یہ سوال بہت عرصے سے ذرائع ابلاغ میں گردش کر رہا ہے کہ ایئر انڈیا فضائی کمپنیوں کے، دنیا کے سب سے بڑے اتحاد اسٹار الائنس کا حصہ کب بنے گی؟ میونخ کے اخبار زُوڈ ڈوئچے سائٹنگ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ ایئر انڈیا اس اتحاد میں شامل ہونےکی معمولی سی شرائط بھی پوری نہیں کر سکی۔ اخبار کے مطابق تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اسٹار الائنس نے راضی ہونے کے باوجود کسی فضائی کمپنی کو خود میں شامل نہ کیا ہو۔ لیکن ایئر انڈیا کے ساتھ ایسا ہوگیا ہے، کیونکہ یہ اپنی نوعیت کی واحد ایئر لائن ہے۔ ایئر انڈیا کو بھارتی سیاستدانوں کی مستقل مداخلت کے باعث بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اسٹار الائنس نے2007 ء میں بھارت کی اس قومی ایئر لائن کو اپنے گروپ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ فیصلہ ابتداء ہی سے متنازعہ تھا۔ اسٹار الائنس کا خیال تھا کہ اس طرح گروپ میں شامل اُن فضائی کمپنیوں کو، جن کی بھارت میں رسائی نہیں ہے، فائدہ پہنچے گا۔ تاہم موجودہ صورتحال میں ایسا لگتا ہے کہ دنیا کے سب سے ایئر لائنز گروپ کو اس حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے۔
تحریر: پِرییا ایسلبورن/ عدنان اسحاق
ادارت : مقبول ملک