جنوبی ایشیا کے حالات واقعات جرمن اخبارات میں
10 اکتوبر 2010امريکی خفيہ ادارے سی آئی اے کے نزديک بغيرپائلٹ کا طيارہ ڈرون ايک معجزانہ ہتھيار ہے۔ يہ ڈرون طيارے افغانستان ميں تعينات بين الاقوامی حفاظتی فوج آئی سيف کی دہشت گردوں کے تعاقب کی مہم کا اہم ترين ہتھیار ہيں، جنہيں حاليہ عرصے کے دوران افغان سرحد کے اُس پار پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزيرستان ميں بھی پہلے سے کہیں زيادہ استعمال کيا جارہا ہے۔
جرمن شہر میونخ سے شائع ہونے والا اخبار Süddeutsche Zeitung لکھتا ہے کہ اس پر پاکستانی عوام بہت غصہ ہيں۔ يہ بات طے ہے کہ ڈرون طياروں کے حملوں سے پاکستان ميں امريکہ کا بہت خراب تاثر قائم ہوا ہے۔ زيادہ تر پاکستانی خود کو مغرب کی مسلط کردہ جنگ کا شکار سمجھتے ہيں۔ بارک اوباما کے صدر بننے سے بھی اس سوچ ميں کوئی تبديلی نہيں آئی ہے۔
اس کے بالکل برعکس اُن کے دور صدارت ميں تو امريکہ نے افغانستان سے ملنے والے پاکستانی سرحدی علاقے میں ڈرون طياروں کے حملوں ميں اور اضافہ کر ديا ہے۔ اس طرح اسلام آباد اور واشنگٹن ايک دوسرے کے لئے مشکل ثابت ہونے والے اتحادی ہيں۔ پاکستان ميں زيادہ تر لوگ امريکہ سے تعاون کے مخالف ہيں۔ پاکستانی وزير داخلہ رحمان ملک نے امريکہ سے مخاطب ہو کر کہا ہے: ’’ہم دوست ہيں يا دشمن؟‘‘ ان کے ملک کے بہت سے لوگ اپنے لئے اس سوال کا جواب تلاش کر چکے ہيں۔
جرمنی کا مشہور ہفت روزہ جریدہ Die Zeit تحرير کرتا ہے: ’’اگر ڈرون طياروں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے جائز ہتھيار تسليم کر ليا جائے تب بھی اُن کے استعمال کی جانچ اس اصول کے تحت کی جانا چاہئے کہ يہ کس قدر ضروری تھا۔ يہ بالکل واضح ہونا چاہئے کہ جن افراد کو ہلاک کيا گيا، اُن کو نشانہ بنانا قطعی طور پر جائز اور ضروری تھا، يعنی يہ کہ اس کے ٹھوس شواہد موجود تھے کہ ان افراد سے واقعی خطرہ موجود تھا۔
’’چونکہ يہ ڈرون حملے پاکستانی علاقے ميں کئے جا رہے ہيں، اس لئے يہ پاکستان کی علاقائی حاکميت کی خلاف ورزی بھی ہيں، جس کا جواز صرف اُس صورت ميں ہو سکتا ہے جب يہ ثابت کيا جا سکے کہ پاکستانی علاقے سے حملے کئے جا رہے تھے اور پاکستانی حکومت يا تو ان حملوں کو روک نہيں سکتی تھی يا پھر انہيں روکنا نہيں چاہتی تھی۔ ليکن ڈرون کی فوجی طاقت، جنگی علاقوں کے بارے ميں ہمارے انداز فکر کو بھی تبديل کرتی ہے۔
’’اگر وہاں ڈرون ايک گندا کام انجام دے ديتا ہے، يعنی دہشت گردوں کو ہلاک کر ديتا ہے، تو پھر ہميں اس پر مزيد سوچنے کی ضرورت ہی نہيں ہے۔ تاہم بين الاقوامی قانون کے ايک ماہر کے يہ الفاظ بھی غور طلب ہيں کہ يہ ہتھيار متاثرہ معاشروں کو ايک جنگل کی سی صورت بھی دے ديتا ہے۔‘‘
جرمنی ميں ابھی تک اس بات کی تصديق نہيں کی گئی کہ حال ہی ميں پاکستان ميں امريکی ڈرون حملوں ميں جرمن مسلمان بھی ہلاک ہوئے ہيں۔ مختلف ذرائع ابلاغ نے پاکستان کی خفيہ ايجنسيوں کے حوالے سے اس حملے ميں آٹھ ترک نژاد جرمن مسلمانوں کی موت کی خبر دی ہے۔
فرینکفرٹ سے شائع ہونے والا جرمن اخبار Frankfurter Allgemeine Zeitung لکھتا ہے: ’’پاکستان ميں ڈرون حملے ايک سياسی مسئلہ بن گئے ہيں۔ حالات سے صحيح طور پر باخبر پاکستانی يہ جانتے ہيں کہ ملکی خفيہ ايجنسی سی آئی اے کو اہداف کی اطلاع ديتی ہے، حالانکہ دوسری طرف پاکستانی حکومت سرکاری طور پر ڈرون حملوں کی مذمت بھی کرتی ہے۔ آئی ايس آئی کے بعض ذرائع کو اس سلسلے ميں کاميابيوں کی اطلاعات سے دلچسپی ہے جبکہ دوسرے ذرائع ناکاميوں اور بڑی تعداد ميں شہری ہلاکتوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہيں کيونکہ يہ اطلاعات پاکستانی حکومت اور امريکہ کی ايک بری تصوير پيش کرتی ہيں۔
’’بسا اوقات پاکستانی ميڈيا ڈرون حملوں کا نشانہ بننے والے علاقے کے شہريوں يا معزز افراد کے بيانات شائع اور نشر کرتے ہيں۔ ليکن کوئی قابل اعتبار معلومات دستياب نہيں جس کی ايک بڑی وجہ يہ ہے کہ پاکستانی حکومت نے جان کے خطرے کی بنياد پر ان علاقوں ميں صحافيوں کی آمد پر پابندی لگا رکھی ہے۔ اب جرمن حکومت اپنے مسلمان شہريوں کے بارے ميں پاکستان ميں جو چھان بين اور تحقيقات کرنا چاہتی ہے، اُس کا بھی کوئی کامياب نتيجہ نکلنے کا کوئی امکان نہيں ہے۔‘‘
بھارت کے زير انتظام کشمير ميں خونریز تنازعہ برسوں سے جاری ہے۔ ليکن اب اس کا انداز تبديل ہو رہا ہے: آزادی کے حصول کی سيکولر خواہش کو اب پيچھے دھکيلا جارہا ہے۔ سياسی بات چيت کا سلسلہ اب رک چکا ہے جبکہ ايک اسلامی رياست کی تمنا پيش پيش نظر آتی ہے۔
اخبار Financial Times Deutschland لکھتا ہے کہ اس منظر سے شدت پسند فائدہ اٹھا رہے ہيں۔ اخبار نے مزيد لکھا ہے: ’’ميڈيا اور سياسی اسٹيج پر مذہبی رہنماؤں کی موجودگی ميں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ايک مذہبی اسلامی رياست کے نعروں ميں تيزی آرہی ہے۔ يہ نعرے سنے جاتے ہيں: ’ہم کوئی بھی نظام کيوں نہ اپنائيں، قانون تو اللہ ہی کا چلے گا۔‘‘
بھارت کے زير انتطام کشمير ميں آزادی کی راہ ڈھونڈنے والے تقريباً دو درجن گروپ ہيں، کبھی انتخابات اور کبھی کلاشنکوف کے بل پر۔ ان میں اتفاق رائے بہت کم ہی ديکھنے ميں آتا ہے۔ ايک سيکولر کے بجائے اسلامی رياست کے نظريے کی حمايت تيزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہندوؤں کو پسند نہيں کيا جاتا۔ تاہم خود بہت سے پتھراؤ کرنے والے نوجوان بھی مقصد کے حصول کے لئے دہشت گردی کے راستے کو غلط سمجھتے ہيں۔
دہشت گرد گروپوں کی صفوں کو اکثر پاکستانی اور افغان ہی پُر کررہے ہيں۔ اگرچہ بعض مقامی عليحدگی پسندوں کے بارے ميں يہ کہا جاتا ہے کہ اُن کے دہشت گردوں سے قريبی روابط ہيں، ليکن زيادہ تر کشميری اب بھی طالبان کی طرز کے نظريات کے بارے ميں گہرے شکوک رکھتے ہيں۔
اس کے ساتھ ہی آج کے اس پروگرام، جنوی ایشیا اور جرمن پریس کا وقت بھی اب ختم ہوا۔ شہاب احمد صديقی بھی آپ سے اجازت چاہتا ہے۔
رپورٹ: آنا ليہمن/ شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک