جنوبی ایشیا کے حالات پر جرمن پریس کے تبصرے
7 جون 2010سوئٹزرلینڈ سے شائع ہونے والے اخبار ’نَوئے زیوریشر سائی ٹُنگ‘ کے مطابق مصطفےٰ ابو الیزید، جسے دہشت گرد تنظیم القاعدہ کا تیسرا اہم ترین رہنما تصور کیا جاتا تھا، غالباً افغانستان کے ساتھ ملنے والے پاکستانی سرحدی علاقے میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہو گیا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ یزید کی موت کا اعلان کیا گیا ہے۔ کئی برس پہلے بھی جاری ہونے والی ایسی ہی خبریں غلط ثابت ہوئی تھیں۔ تاہم اخبار کے مطابق اِس بار خود القاعدہ کی جانب سے یزید کی موت کی تصدیق کی گئی ہے۔
اخبار لکھتا ہے:’’اگر یہ خبریں اِس بار درست ثابت ہوتی ہیں تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے لئے یہ ایک نمایاں کامیابی ہو گی۔ واشنگٹن میں ایک سرکاری نمائندے نے کہا کہ کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں تھا، جس میں اِس مرنے والے رہنما کا ہاتھ نہیں تھا، حتیٰ کہ جنگی کارروائیوں کی منصوبہ بندی میں بھی اُس کی بات کو مرکزی اہمیت دی جاتی تھی۔ وہ اُن چند لوگوں میں سے ایک تھا، جو براہِ راست اُسامہ بن لادن کے ساتھ رابطے میں تھے۔ ایسے میں یزید کی موت سرِ دست اِس دہشت گرد تنظیم کے لئے ایک دھچکے کے مترداف ہے۔ ابھی لیکن اِس سے اِس تنظیم کی لڑنے کی قوت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ القاعدہ نے بار بار ثابت کیا ہے کہ وہ اپنی قیادت کے مرنے یا زخمی ہو جانے والے ارکان کے متبادل جلد ہی تلاش کر لیتی ہے۔‘‘
جرمن اخبار ’زُوڈ ڈوئچے‘ لکھتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ڈرون حملے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا مؤثر ترین ہتھیار بن چکے ہیں۔ اخبار کے مطابق حکومتِ پاکستان بظاہر اِن حملوں کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے لیکن دراصل یہ حملے اُس کی خاموش حمایت کے ساتھ عمل میں لائے جا رہے ہیں۔
امریکی ڈرون پالیسی کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے اخبار لکھتا ہے:’’یہ ایک المیہ ہے کہ اِن حملوں میں زیادہ تر عام شہری ہی مارے جاتے ہیں۔ بالآخر لیکن انتہا پسندی کو غیر فوجی ذرائع ہی سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اوباما حکومت پاکستان سے متعلق پالیسیوں کے سلسلے میں زبردست غلطیوں کی مرتکب ہو رہی ہے۔ حال ہی میں ایک سرکردہ عہدیدار نے ایک امریکی اخبار کو بتایا کہ اگر کسی روز امریکہ میں کوئی ایسا حملہ ہوا، جس کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی ہو گی، تو امریکہ زبردست فضائی حملوں کی صورت میں اُس کا جواب دے گا۔ اِس طرح کے بیانات کافی زیادہ غیر ذمہ دارانہ ہیں اور محض پاکستانی عوام کے اشتعال کو ہوا دیں گے۔ پاکستانی عوام کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اُن کے بھلے کے لئے لڑی جا رہی ہے۔ دوسری صورت میں امریکہ کی ساکھ، جو پہلے ہی خراب ہے، خراب تر ہوتی چلی جائے گی۔
بھارت سے متعلق خبروں پر تبصرے
بھارت اور چین دونوں ہی ملکوں میں اقتصادی ترقی کی شرحیں ہوش رُبا حد تک زیادہ جا رہی ہیں۔ ایک بار پھر اِن دونوں ریاستوں کو عالمی معیشت کے انجن قرار دیا جا رہا ہے۔ ’جرمن انسٹی ٹیوٹ آف گلوبل اینڈ ایریا اسٹڈیز‘ کے مطابق اِس قدر ترقی کے باوجود ان دونوں ملکوں کو زبردست سماجی اور اقتصادی چیلنجوں کا سامنا ہے۔
یہ ادارہ اپنے ایک جائزے میں لکھتا ہے:’’بلاشبہ اقتصادی ترقی کے اِس عمل کے دوران دونوں ملکوں، بالخصوص چین میں غربت میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے تاہم ساتھ ہی اِن دونوں ملکوں میں امیر اور غریب کے درمیان پایا جانے والا فرق بھی بہت بڑھ گیا ہے۔ آمدنی، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں نظر آنے والا فرق سماجی تنازعات کا باعث بن سکتا ہے اور سماجی استحکام کو خطرے سے دوچار کر سکتا ہے۔ ان دونوں ملکوں میں دیہی آبادی کے ایک حصے کی شہروں میں منتقلی آمدنی اور تعلیم کے حوالے سے مثبت اثرات مرتب کر رہی ہے لیکن دوسری طرف اقتصادی ڈھانچے اور سماجی نظاموں پر دباؤ میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ دونوں ملکوں کو ماحول کی آلودگی کے بڑے مسائل درپیش ہیں، جو ترقی کے عمل پر بھی منفی انداز میں اثر ڈال رہے ہیں۔ بھارت میں اور چین کے خاص طور پر دیہی علاقوں میں اقتصادی ڈھانچے کی تعمیر و توسیع کا فُقدان معاشی ترقی کے لئے رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے۔
برلن کے روزنامے ’ٹاگیز شپیگل‘ نے بھارتی ریاست مغربی بنگال کے ضلع مغربی مِدنا پور میں ریل گاڑی ’گنیشوری ایکسپریس‘ پر خونریز حملے کو اپنے تبصرے کا موضوع بنایا ہے۔ اِس حملے میں، جس کا ذمہ دار ماؤ نواز باغیوں کو تصور کیا جا رہا ہے، ایک سو سے زیادہ افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ اخبار لکھتا ہے:’’اِس ٹرین پر حملے کے ساتھ ہی بھارت کی فراموش کردہ جنگ ایک نئے اور خونریز نقطہء عروج پر پہنچ گئی ہے۔ ماؤ نواز بھارت میں ایک کمیونسٹ عوامی جمہوریہ قائم کرنا چاہتے ہیں اور خود کو ایک ایسی دیہی آبادی کا نمائندہ کہتے ہیں، جسے اُس کے حقوق نہیں دئے جا رہے۔ تا ہم عام شہریوں پر حملہ اب تک اِن چھاپہ ماروں کا وطیرہ نہیں تھا۔ اب تک وہ سیکیورٹی فورسز اور سرکاری عمارات کو ہی نشانہ بناتے تھے۔ جب سے وزیر اعظم من موہن سنگھ نے ماؤ نواز باغیوں کو ’بھارت کی داخلی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ‘ قرار دیا ہے اور حکومت نے گزشتہ موسمِ خزاں سے اُن کے خلاف ایک بڑا آپریشن شروع کیا ہے، تب سے اِن باغیوں کے حملوں میں بھی تیزی آ گئی ہے۔ ریل گاڑی کے مسافروں پر حملے سے دونوں فریقوں کے درمیان کشیدگی کو اور باغیوں کے خلاف غم و غصے کو اور ہوا ملے گی۔
ماؤ نواز گزشتہ چار عشروں سے زیادہ عرصے سے بھارتی ریاست کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔ اِن چھاپہ ماروں کی سرگرمیاں اربوں کی سرمایہ کاری کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ نئی دہلی کے فوجی دَستے معدنی ذخائر سے مالا مال جنگلاتی پٹی پر کنٹرول کھو چکے ہیں۔
اِس موضوع پر جرمن ہفت روزہ ’ڈیئر شپیگل‘ لکھتا ہے: ’’مغربی دُنیا کی نظروں سے اوجھل برصغیر کے گھنے جنگلات میں ایک خواب داؤ پر لگا ہوا ہے، ایک عالمی طاقت ہونے کی منزل کی طرف گامزن ’شائننگ انڈیا‘ یا ایک روشن اور خوشحال بھارت کا خواب۔ تاہم صرف چاول کے کاشتکار، چمڑا بنانے والے یا کمپیوٹر سافٹ ویئر کے ماہر بھارت کی اقتصادی ترقی میں اضافے کی سالانہ سات فیصد تک کی شرح کو زیادہ دیر تک برقرار رکھنے کے ضامن ثابت نہیں ہو سکتے۔ تاہم بیش بہا معدنی خزانے، جن کی مالیت کم از کم کئی سو ارب یورو ہو گی، اُس علاقے میں ہیں، جو ماؤ نوازوں کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔ ایسا نظر نہیں آتا کہ جلد اِن معدنی ذخائر کو زمین سے نکالنا ممکن ہو سکے گا۔ ماؤ نوازوں کو حکومت کتنی سنجیدگی سے لے رہی ہے، اِس کا اندازہ وزیر اعظم من موہن سنگھ کے اُس حالیہ بیان سے لگایا جا سکتا ہے، جس میں اُنہوں نے خبردار کیا کہ بھارتی ماؤ نواز نیپال، کشمیر یا سری لنکا کے باغیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر سکتے ہیں۔
تحریر: آنا لیہمان / امجد علی
ادارت: مقبول ملک