جنوبی سوڈان میں فائر بندی کی ڈیل طے پا گئی
10 مئی 2014شدید عالمی دباؤ کے نتیجے میں طے پانے والے اس فائر بندی کے معاہدے کے تحت جنوبی سوڈان میں ایک عبوری حکومت تشکیل دینے پر اتفاق رائے ہوا ہے۔ جمعے کے دن صدر سلوا کیر اور ان کے سابق نائب اور باغی رہنما ریک مچار نے براہ راست ملاقات میں عہد کیا کہ وہ ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے مؤثر اقدامات کریں گے۔ جنوبی سوڈان میں گزشتہ برس دسمبر میں شروع ہونے والے تنازعے کے بعد ان دونوں رہنماؤں کی یہ پہلی براہ راست ملاقات تھی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے ادیس ابابا سے موصول ہونے والی اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ سلوا کیر اور ریک مچار نے مصافحہ کیا اور اکٹھے عبادت کی۔ ایتھوپیا کے دارالحکومت میں منعقد ہوئی ایک تقریب کے دوران فائر بندی کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد سلوا کیر نے کہا، ’’ہمارے مسائل کے حل کے لیے مذاکرات بہترین راستہ ہے۔‘‘ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ درست سمت کی طرف بڑھتے رہیں گے۔
اگرچہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ عبوری حکومت کس طرح تشکیل دی جائے گی اور اس میں کون کون شامل ہو گا تاہم سلوا کیر اور ریک مچار نے متفقہ طور پر کہا ہے کہ جنوبی سوڈان کو بحرانی صورت حال سے نکالنے کے لیے ایک عبوری حکومت کا قیام ناگزیر ہے، جو آئندہ برس انتخابات کا انعقاد کرے گی۔
علاقائی گروپ IGAD کے اعلیٰ مذاکرت کار صیوم میسفن نے میڈیا کو بتایا ہے کہ فائر بندی معاہدے پر چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر عملدرآمد شروع کر دیا جائے گا جب کہ اطراف اشتعال انگیزی سے باز رہیں گے۔ عالمی دباؤ کے بعد ریک مچار اور سلوا کیر کے مابین شروع ہونے والے ان براہ راست امن مذاکرات میں اسی علاقائی گروپ نے ثالثی کا کام کیا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ جنوبی سوڈان کے ان دونوں رہنماؤں کے مابین رواں برس جنوری میں بھی فائر بندی کا ایک معاہدہ طے پایا تھا لیکن وہ دیر پا ثابت نہ ہو سکا تھا۔ اس وقت ان دونوں مسیحی رہنماؤں نے تشدد کے لیے ایک دوسرے پر الزام عائد کیا تھا۔ بعدازاں امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے علاوہ اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون نے جنوبی سوڈان کا دورہ کیا تھا، جس میں انہوں نے زور دیا تھا کہ وہاں جاری فسادات کو روکنے کے لیے عبوری حکومت تشکیل دی جائے اور مکمل فائر بندی پر متفق ہوا جائے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی سوڈان میں گزشتہ چھ ماہ سے جاری ان فسادات کے دوران سلوا کیر اور ریک مچار دونوں کے ہی حامی قتل، آبروریزی اور جنسی نوعیت کی دیگر زیادتیوں میں ملوث رہے ہیں۔ اس تشدد کو دیکھتے ہوئے وہاں بڑے پیمانے پر نسل کشی کے واقعات کے خدشات پیدا ہو گئے تھے۔ دارالحکومت جوبا سے شروع ہونے والے ان پرتشدد واقعات نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور اس دوران اقوام متحدہ کے مطابق ہزاروں افراد ہلاک جب کہ ایک ملین سے زائد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔