جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن
22 جولائی 2009اس آپریشن کے دوران زمینی کاروائی کم دیکھنے میں آئی تاہم جیٹ طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹرز کے ذریعے عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کونشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔
جنوبی وزیرستان میں تازہ ترین فضائی کاروائی کے دوران تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود کے دو ٹھکانوں کونشانہ بنایاگیا جس میں ان کے چھ ساتھیوں کی ہلاکت کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔جنوبی وزیرستان میں جاری آپریشن میں مالاکنڈ ڈویژن کے آپریشن راہ راست کی طرح تیزی دیکھنے میں نہیں آئی۔
ماہرین کا کہناہے کہ شاید مالاکنڈ ڈویژن سمیت دیگر قبائلی علاقوں میں جاری کشیدگی کی وجہ سے سیکیورٹی فورسز مزید محاذ کھولنا نہیں چاہتی اور یہاں ان کی پالیسی قدرے مختلف ہے۔ انہی پالیسیوں کے تحت ہی جنوبی وزیرستان میں فوج کے خلاف پرسرپیکار تحریک طالبان کے سربراہ کے خلاف گروپ بندیوں اور محسود قوم سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کو گروپوں میں تقسیم کرنے کی کوشش بھی جاری ہے۔ بیت اللہ محسود کی مخالفت میں اٹھنے والی آواز کوغیر محسوس طریقے سے سپورٹ کیاجاتاہے 2004ء میں طالبان کے سربراہ نیک محمد کے میزائل حملے میں ہلاکت کے بعد گروپ بندی کاآغاز ہوا ان کے بعد عبداللہ محسود نے خود طالبان کا سربراہ قراردیا جبکہ قاری زین الدین اورکئی دیگر نے ان کاساتھ دیا کچھ عرصہ قبل عبداللہ محسود گروپ کے سربراہ قاری زین الدین کو انکے محافظ نے ڈیرہ اسماعیل خان میں قتل کیا۔ اسی گروپ کے علاوہ بھی جنوبی وزیرستان میں کئی دیگر گروپ متحرک رہے جنہوں نے متفقہ طورپر اخلاص خان کو گروپ کا سربراہ نامزد کیا ہے ماہرین کا کہناہے کہ جنوبی اور شمالی وزیرستان میں اسی طرح کے گروپ بندیوں کے ذریعے ان جنگجو کمانڈروں کے مابین اختلافات پیدا کرنے کے لئے بھی کوشیشیں جاری ہیں۔ قبائلی امور کے ماہر اور فاٹا سیکیورٹی کے سابق سربراہ رستم شاہ مومند کا کہنا ہے : ” قبائلی علاقوں میں وہی گروپ آگے بڑھ سکتاہے جنکے پاس وسائل زیادہ ہوں کسی گروپ کی کامیابی قبائلی علاقوں میں وسائل پرمنحصر ہوتی ہے اگران کے پاس وسائل کافی ہیں تو پھر یہ نہ صرف ترقی کرے گا بلکہ یہ اپنے لیے راستہ نکالے گا اور ان کی تعداد میں اضافہ ہوگا ۔ لوگ ان کا ساتھ دیں گے اور یہ مختلف علاقوں میں اپنے دفاتر بھی قائم کریں گے۔ لوگ ایک لیڈر شپ سے اس وقت تنگ آجاتے ہیں جب ان کی سربراہی میں مسلسل بدامنی ہو اور وہ گروپ عوام کو امن وتحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوان کی سربراہی میں مسلسل کشیدگی ہو توان حالات میں قبائلی متبادل قیادت کی طرف دیکھتے ہیں “
جنوبی وزیرستان میں بیت اللہ محسود کے خلاف اتحاد کرنے والے تین گروپوں میں حاجی ترکستان بھٹنی ، حاجی تحصیل خان اوراخلاص خان شامل ہیں۔ چالیس سالہ اخلاص خان جو علاقے میں وزیرستان بابا کے نام سے پہنچانے جاتے ہیں، تین سال سے عبداللہ محسودگروپ کے ساتھ رہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اب کے بار یہ گروپ مستحکم نظرآتاہے اس گروپ نے چھ مختلف مقامات پر اپنے مراکز کھول دیئے ہیں جبکہ عبداللہ گروپ کا سربراہ نامزد ہونے کے بعد جرگے سے خطاب کرتے ہوئے اخلاص خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ علاقے میں معصوم لوگوں کے قتل عام کی اجازت نہیں دیں گے۔ماہرین کا کہناہے کہ آپریشن کے ساتھ بیت اللہ محسود کے مخالفین کی تعاون سے بھی شدت پسندی اور بدامنی پر قابو پایاجا سکتا ہے۔
فرید اللہ خان ، پشاور
ادارت: عاطف بلوچ