جنوبی کوریا: صدر کے اختیارات منسوخ
9 دسمبر 2016جنوبی کوریا کی خاتون صدر پارک گن ہے کے خلاف حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی۔ اس کے بعد صدر کے اختیارات کو معطّل کر دیا گیا ہے جبکہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ایک ہنگامی اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے۔ ملکی حزب اختلاف کی جانب سے مواخذے کی اس تحریک پر انہیں دو تہائی ارکان کی حمایت کی ضرورت تھی، جو انہیں حاصل ہو گئی۔ اس دوران پارک کی اپنی جماعت کے بھی کچھ ارکان نے انہیں صدر کے عہدے سے ہٹانے کے لیے ملکی اپوزیشن کا ساتھ دیا۔
پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد کے دوران ہونے والی رائے شماری کے بعد اب ملکی آئینی عدالت ووٹنگ کی قانونی حیثیت کا جائزہ لیتے ہوئے اپنا فیصلہ دے گی اور اس عمل میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔
پارک گن ہے پر بدعنوانی کے الزامات ہیں اور ان کے خلاف ایک طویل عرصے سے عوامی مظاہرے جاری تھے۔ اُن پر الزام ہے کہ اُنہوں نے اپنی ایک قریبی دوست چوئی سُون سِیل کو ریاستی معاملات میں مداخلت کی اجازت اور سرکاری دستاویزات تک رسائی دی۔ چوئی پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور فراڈ کے الزامات میں فردِ جرم عائد کی جا چکی ہے۔ ان الزمات کے بعد سے پارک کی عوامی مقبولیت کم ہو کر صرف چار فیصد تک آ گئی تھی۔
جنوبی کوریا میں 1987ء سے عہدہ صدارت کی مدت ختم ہونے کے بعد تمام صدور کی تحقیقات کی جاتی رہی ہیں اور ایک صدر نے تو بدعنوانی کے الزامات کے بعد خود کشی بھی کر لی تھی۔ پارک سے پہلے جنوبی کوریا کے تین پیشرو صدور کسی نہ کسی طریقے سے بدعنوانی میں ملوث رہے ہیں۔ کم ڈائے ینگ 1988ء سے 2003ء تک ملکی صدر رہے تھے۔ ان کے دو بیٹوں کو رشوت خوری کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔
2003ء سے 2008ء تک سربراہ مملکت رہنے والے رو مو ہیون نے ایک تاجر سے چھ ملین ڈالر وصول کرنے کے الزام کی وجہ سے خود کشی کر لی تھی۔ 2004ء میں رو کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد کی کامیاب ہو گئی تھی، تاہم آئینی عدالت نے اس کے خلاف فیصلہ دے دیا تھا۔ اسی طرح 2008ء سے 2013ء تک جنوبی کوریائی صدر لی میونگ بک کے بڑے بھائی کو ساڑھے پانچ لاکھ ڈالر رشوت لینے کے جرم میں دو سال کی جیل کاٹنا پڑی تھی۔