جنوبی کوریا: مارشل لاء کا نفاذ اور صدر سے استعفے کا مطالبہ
4 دسمبر 2024جنوبی کوریا کے صدر نے مارشل لاء نافذ کرنے کا حکم دیا، تاہم ارکان پارلیمان اس کے خلاف یکجا ہوگئے اور صدر نے حیران کن اقدام کو واپس لے لیا۔
جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے بدھ کی صبح کے اوائل میں اس وقت کئی گھنٹوں تک نافذ رہنے والے غیر مثالی مارشل لا کے خاتمے پر اتفاق کیا، جب اپوزیشن کے زیر کنٹرول پارلیمنٹ نے دیر رات گئے اس پر ہنگامی اجلاس کیا اور ان کے اس اقدام کے خلاف متفقہ طور پر ووٹ کیا۔
منگل کی رات کو افراتفری کے ماحول میں اچانک تقریبا گیارہ بجے مارشل لاء نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
جنوبی کوریا: داخلہ امتحان کے لیے والدین کی اجتماعی دعائیں
صدر یون نے اس سلسلے میں ٹیلیویژن پر اپنے خطاب میں کہا، "ابھی ایک لمحہ قبل ہی، قومی اسمبلی سے ہنگامی حالت کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا اور ہم نے فوج کو واپس بلا لیا ہے، جو مارشل لاء کی کارروائیوں کے لیے تعینات کی گئی تھی۔"
انہوں نے مزید کہا، "ہم قومی اسمبلی کی درخواست کو قبول کریں گے اور کابینہ کے اجلاس کے ذریعے مارشل لاء اٹھائیں گے۔"
صدر یون نے اس سے صرف چند گھنٹے قبل ہی مارشل لاء کا اعلان کر کے ملک کو حیران کر دیا تھا۔ انہوں نے اس کے لیے اپوزیشن پر حکومت کو مفلوج کرنے اور شمالی کوریا کے ساتھ ہمدردی کرنے کا الزام لگایا تھا۔
جنوبی کوریا کی جانب سے شمالی کوریا پرانتباہی فائرنگ
صدر یون نے مارشل لا نافذ کرنے کے جواز کے بارے میں کہا تھا، "ایک آزاد خیال جنوبی کوریا کو شمالی کوریا کی کمیونسٹ قوتوں کی طرف سے لاحق خطرات سے بچانے اور ریاست مخالف عناصر کو ختم کرنے کے لیے۔۔۔۔۔ میں یہاں ایمرجنسی مارشل لاء کا اعلان کرتا ہوں۔"
ان کے اس اعلان کے چند لمحوں بعد ہی پولیس دارالحکومت سیول میں قومی اسمبلی کے باہر جائے وقوعہ پر موجود تھی، جبکہ ہیلی کاپٹر کو ایوان کی چھت پر اترتے دیکھا گیا اور اسپیشل فورسز کے دستے ایوان کی عمارت کے اندر داخل ہونے کی اطلاع ملی۔
کم جونگ اُن نے جنوبی کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں کی دھمکی دے دی
تاہم اسی دوران ہزاروں مظاہرین بھی صدر کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے جبکہ قانون ساز قومی اسمبلی میں داخل ہونے اور مارشل لاء کے خلاف ووٹ میں حصہ لینے کے لیے پولیس اور فوجیوں کے ساتھ تصادم کرتے ہوئے وہاں تک پہنچے۔
جنوبی کوریا کے لیے نیا سرحدی خطرہ، شمال سے آنے والے مچھر
اپوزیشن نے مارشل لاء کے خاتمے کے لیے ووٹ کیا
ایوان کے اندر پارلیمانی عملے نے فوجیوں کو تحریک میں رکاوٹ ڈالنے یا اس اجلاس کو روکنے سے باز رکھنے کے لیے بریکٹ لگا دیے اور پھر مار شل لاء کے خلاف متفقہ طور پر قرارداد منظور کر لی گئی۔
ایوان کے اسپیکر وو وون شیک نے کہا کہ "موجود 190 میں سے، 190 ارکان نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ کیا اور میں اعلان کرتا ہوں کہ ایمرجنسی مارشل لا کے خاتمے کا مطالبہ کرنے والی قرارداد منظور کر لی گئی ہے۔"
جنوبی کوریا کے آئین میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جب پارلیمنٹ میں اکثریت مطالبہ کرے تو مارشل لاء کو ہٹا دیا جانا چاہیے۔
جنوبی کوریا میں آبادی میں اضافے کے لیے علیحدہ وزارت قائم
پارلیمنٹ کے باہر پولیس کے ساتھ جھڑپیں کرنے والے مظاہرین نے اس اعلان پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے "ہم جیت گئے!" کے نعرے لگائے۔
اس کے بعد صدر یون نے اعلان کیا کہ وہ اس مطالبے کی تعمیل کریں گے اور جیسے ہی وہ اپنی کابینہ کا اجلاس طلب کر سکیں گے مارشل لا ہٹا دیں گے۔
شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں، جنوبی کوریا
'غیر قانونی اور غیر آئینی'
گزشتہ صدارتی انتخابات میں یون سے شکست کھانے والے اپوزیشن لیڈر لی جے میونگ نے کہا کہ مارشل لاء کا نفاذ "غیر قانونی اور غیر آئینی" تھا۔
یون کی انتظامیہ میں خدمات انجام دینے والے ہان ڈونگ ہون نے اس فیصلے کو "غلط" قرار دیا اور "لوگوں کے ساتھ مل کر اسے روکنے" کا عزم کیا۔
واشنگٹن میں، وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا: "ہمیں راحت ملی ہے کہ صدر یون نے مارشل لاء کے اعلان کے بارے میں اپنا راستہ تبدیل کر دیا ہے۔ جمہوریت امریکہ اور جنوبی کوریا کے اتحاد کی بنیاد ہے اور ہم صورتحال کی نگرانی جاری رکھیں گے۔"
جنوبی کوریا: سیم سنگ یونین کی غیر معینہ مدت کی ہڑتال
امریکی قومی سلامتی کونسل نے پہلے کہا تھا کہ واشنگٹن کو مارشل لا کے اعلان کے اقدام سے مطلع نہیں کیا گیا تھا، جبکہ امریکی نائب وزیر خارجہ کرٹ کیمبل نے "شدید تشویش" کا اظہار کیا تھا۔
تقریباً 30,000 امریکی فوجی جنوبی کوریا میں اپنے شمالی پڑوسی کے خلاف حفاظت کے لیے تعینات ہیں۔
چین، جاپان اور جنوبی کوریا کا ایک 'نئی شروعات' کا عہد
مارشل لاء کے حکم نامے میں کیا کہا گیا تھا؟
مارشل لاء کا اعلان کرنے والی دستاویز میں کہا گیا کہ وہ ایسا "لبرل جمہوریت کے تحفظ کے لیے" اور "عوام کی حفاظت کے لیے" کر رہے ہیں۔
اس نے چھ بنیادی نکات بتائے اور کہا کہ ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بغیر وارنٹ کے تلاشی، گرفتاری اور حراست میں لیا جا سکتا ہے۔ اس کے تحت تمام سیاسی سرگرمیاں، پارلیمنٹ سے لے کر مقامی کونسلوں تک اور عوامی مظاہروں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
اس میں کہا گیا کہ کوئی بھی عمل "جو لبرل جمہوری نظام کو ختم کرنے کی تردید کرتا ہے یا اسے ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے ممنوع ہے، اور جعلی خبریں، رائے عامہ سے ہیرا پھیری، اور جھوٹا پروپیگنڈا ممنوع ہے۔"
ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)