جنگ کی وجہ سے تباہ ہوتا بچپن
13 فروری 2020بچوں کی فلاح کے لیے سرگرام بین الاقوامی ادارے سیو دی چلڈرن کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سن 2018ء میں دنیا میں ہر چھ میں سے ایک بچہ جنگ زدہ علاقے میں رہتا تھا اور ایسے بچوں کی مجموعی تعداد 415 ملین تھی۔
سیو دی چلڈرن کی چیف ایگزیکٹیو انگر اشینگ نے اس صورت حال کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے بتایا، ”سن 2005ء سے اب تک کم از کم 95,000 بچے مارے جاچکے ہیں یا مستقل معذور ہوگئے ہیں۔ ہزاروں بچوں کا اغوا کیا گیا اور لاکھوں بچے تعلیم اورصحت کی سہولیات تک رسائی سے محروم ہوگئے کیوں کہ ان کے اسکولوں یا اسپتالوں پر حملے کرکے تباہ کردیا گیا۔"
سیو دی چلڈرن نے ”بچوں کے خلاف جنگ بند کرو“ کے عنوان سے شائع کردہ اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 2010ء کے بعد سے بچوں کے خلاف ”سنگین تشدد" کے واقعات میں 170فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جب کہ 2010ء کے بعد سے جنگ زدہ علاقوں میں رہنے والے بچوں کی تعداد 34 فیصد بڑھی ہے۔
اینگر ایشنگ کہتی ہیں کہ اگر حکومتیں بچوں کو بچانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے میں ناکام رہتی ہیں اور بچوں کے خلاف جرائم کے لیے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی نہیں کرتی ہیں تو ”بچوں کی زندگیاں تباہ ہونے“ کا سلسلہ جاری رہے گا۔
افریقی بچے سب سے زیادہ متاثر
رپورٹ کے مطابق افریقہ میں رہنے والے بچے سب سے زیادہ متاثر ہیں کیوں کہ 170ملین بچے جنگ زدہ علاقوں میں رہنے کے لیے مجبور ہیں۔ مشرق وسطٰی میں ہر تین میں سے ایک بچہ جنگ زدہ علاقے میں رہتا ہے۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ بہت بڑی تعداد میں بچوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں مثلا ً انہیں ہلاک کیا جارہا ہے، معذور کیا جا رہا ہے، مسلح افواج میں بھرتی کیا جارہا ہے، اغوا کیا جا رہا ہے، اسکولوں اور اسپتالوں پر حملے کیے جا رہے ہیں، انسانی ضروریات تک رسائی سے محروم رکھا جا رہا ہے اور جنسی زیادتی یا جنسی تشدد کا شکار بنایا جارہا ہے۔
انتہائی تصادم والے علاقوں میں رہنے والے سب سے زیادہ بچوں کی تعداد کے لحاظ سے نائجیریا، میکسیکو، عوامی جمہوریہ کانگواور افغانستان سرفہرست ہیں۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان میں گزشتہ 18 برسوں کے دوران ایک بھی بچہ امن کی حالت میں پیدا نہیں ہوا۔ یہی صورت حال عوامی جمہوریہ کانگو اور جنوبی سوڈان جیسے ملکوں کی بھی ہے۔
سیو دی چلڈرن نے اپنی رپورٹ میں افغانستان میں رہنے والے ایک دس سالہ بچے ہمت کا یہ بیان نقل کیا ہے، ”مجھے اسکول جاتے ہوئے یہ خوف ستاتا ر ہتا ہے کہ کہیں خود کش حملے کا شکار نہ ہوجاؤں یا کوئی مجھے اغوا نہ کرلے اور مجھے یہ بھی ڈر لگتا ہے کہ کوئی مجھے قتل نہ کردے۔ لوگ بچوں کو مار رہے ہیں۔ ہم محفوظ نہیں ہیں۔ ہمارے یہاں اچھے اسکول نہیں ہیں۔ بہت سے لوگ مارے جاچکے ہیں اور کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہے۔“
صنفی امتیاز
رپورٹ کے مطابق تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں الگ الگ طرح کے خطرات سے دوچارہیں۔ ”لڑکیوں کو جنسی اور صنفی بنیاد پر دیگر طرح کے تشدد کا بہت زیادہ خطرہ لاحق رہتا ہے۔ اس میں کم عمری میں اور زبردستی شادی بھی شامل ہے۔ جب کہ ”لڑکے قتل کردیے جانے یا مستقل معذور بنادیے جانے، اغوا اور مسلح گروہوں میں زبردستی بھرتی کے خطرات سے دوچار رہتے ہیں۔“
ج ا / ا ب ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)