جنگلوں کی نسبت پنجروں میں موجود ٹائیگروں کی تعداد زیادہ
آج ٹائیگروں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اندازوں کے مطابق جنگلوں میں موجود ٹائیگروں کی تعداد چار ہزار سے بھی کم رہ گئی ہے لیکن چڑیا گھروں اور گھروں میں ان کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔
معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار
ٹائیگر چھپ کر اور تنہائی میں رہنے والا جانور ہے۔ اسے نقل و حرکت کے لیے بڑے علاقے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ملائیشیا کے جنگلات، بھوٹان کے پہاڑوں اور بھارت کے ساحلی جنگلات میں ان کے لیے جگہ کم ہو رہی ہے۔ درخت تیزی سے کاٹے جا رہے ہیں، کاشت کاری، بڑھتی ہوئی آبادیاں اور سڑکوں کے جال ان کے لیے موت کا پیغام ثابت ہو رہے ہیں۔
پنجرے جنگلات کا متبادل نہیں
نرم و ملائم بال، دھاری دار کھال اور خوبصورتی کی وجہ سے چڑیا گھروں کا یہ پسندیدہ ترین جانور ہے۔ امریکا میں یہ بات سچ لگتی ہے۔ امریکی محکمہ برائے جنگلی حیات کے مطابق گھروں اور چڑیا گھروں میں رکھے گئے ٹائیگرز کی تعداد جنگلوں میں پائے جانے والے ٹائیگرز کی نسبت کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ صرف ٹیکساس میں قید ٹائیگرز کی تعداد دو ہزار سے پانچ ہزار کے درمیان ہے۔
پنجرے اور حیران کن واقعات
جنگلات میں ٹائیگروں کے نصف بچے ہی زندہ بچ پاتے ہیں۔ نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر بعض اوقات مادہ ٹائیگر بچوں کو دودھ نہیں پلاتی لیکن چڑیا گھروں میں ایسے بچوں کو کتیا کے ساتھ رکھ دیا جاتا ہے تاکہ بچے دودھ پی سکیں۔ ٹائیگر کے بچے فرق محسوس کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور اس طرح ان کے زندہ بچ جانے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
ٹائیگر کی تین اقسام مِٹ چکی ہیں
مجموعی طور پر ٹائیگر کی نو ذیلی اقسام ہیں لیکن آج ہمارے پاس صرف چھ ہی باقی بچی ہیں۔ صدیوں کی موسمیاتی تبدیلیوں نے ان کی نسل پر بھی اثرات چھوڑے ہیں۔ سربیا کے اس ٹائیگر (آمور، تصویر میں) کے بال اور جسامت دیگر اقسام سے بڑی ہوتی ہے۔
افزائش نسل میں مشکلات
ٹائیگرز کی موجودہ چھ اقسام میں جینیاتی لحاظ ایک جیسی ہی ہیں لیکن ان کی عادات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ٹائیگروں کی جو عادات ایشیا میں ہیں، وہ افریقہ میں نہیں۔ کچھ ٹائیگر برساتی جنگلات میں رہتے ہیں اور کچھ خشک جنگلات میں، اسی طرح کچھ کا مسکن دلدلی علاقے ہیں تو کچھ تین ہزار میٹر کی بلندی پر رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تلاش اور ان کی تعداد میں اضافے کی کوششیں کرنا ایک مشکل امر ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیاں ایک بڑا خطرہ
ویسے تو انہیں کئی قسم کے خطرات لاحق ہیں لیکن ماحولیاتی تبدیلیاں ان کے لیے ایک بڑا خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ سائنس آف دا ٹوٹل انوائرمنٹ میں شائع ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سندربن جنگلات میں پانی کی سطح بلند ہو ہی ہے۔ بھارت سے بنگلہ دیش تک پھیلے اس قدرتی علاقے میں آنے والی تبدیلیاں بنگال ٹائیگرز کی نسل کے لیے خطرہ ہیں۔ یہ نسل صرف اسی ماحول کی عادی ہے۔