جوہری تنصیبات کے تحفظ کے لئے ایرانی جنگی مشقیں
23 نومبر 2009تہران حکومت کی جانب سے اپنی فوجی طاقت کا یہ مظاہرہ ایسے وقت کیا جا رہا ہے، جب اس کے متنازعہ جوہری منصوبے پر چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ کشیدگی بھی بڑھ رہی ہے۔
ایرانی فضائیہ کے سربراہ بریگیڈیئر جنرل احمد میقانی کا کہنا ہے کہ جنگی مشقوں کا مقصد ممکنہ فضائی حملوں کا مقابلہ کرنا اور فوجی طاقت کو بڑھانا ہے۔ سرکاری ٹیلی ویژن نے احمد میقانی کے حوالے سے بتایا ہے کہ مشقوں میں ریوولوشنری گارڈز اور فوج حصہ لے رہی ہے۔ احمد میقانی کا کہنا ہے کہ یہ فوجی مشقیں چھ لاکھ مربع کلومیٹر کے رقبے پر منعقد کی جا رہی ہیں۔
مغربی طاقتوں کو خدشہ ہے کہ ایران کے جوہری منصوبے کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کا حصول ہے، تاہم تہران حکام کے مطابق یہ منصوبہ پرامن مقاصد کے لئے ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ ایران کے جوہری تنازعے کا سفارتی حل چاہتے ہیں۔ تاہم یہ دونوں ریاستیں ان کوششوں کی ناکامی کی صورت میں عسکری حل کو بھی خارج ازامکاں قرار نہیں دیتیں۔
ایران اپنی جوہری املاک پر کسی بھی حملے کا سختی سے جواب دینے کا عندیہ دے چکا ہے۔ تہران حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیل نے حملہ کیا تو اس کا جواب تل ابیب پر میزائل حملے سے دیا جائے گا۔
بریگیڈیئر جنرل میقانی کہتے ہیں کہ حالیہ مشقوں کا مقصد بھی ملک کی جنگی استعداد دکھانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دفاعی پالیسیاں، نفیساتی آپریشن اور جدت کو جنگی مشقوں کے مقاصد میں شامل ہیں۔
ایران ماضی بھی متعدد جنگی مشقوں کا اہتمام کر چکا ہے، جن میں دُور مار میزائل شہاب سوم کا تجربہ بھی شامل ہے۔ یہ میزائل دوہزار کلومیٹر پر اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
ایران اپنی نیم افزودہ یورینیئم سے ایندھن حاصل کرنے کے لئے اسے روس اور فرانس منتقل کرنے کی عالمی تجویز ردّ کر چکا ہے۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ اس یورینیئم کی اندرون ملک نگرانی کی جا سکے تو جوہری ایندھن سے اس کے تبادلے پر غور کیا جا سکتا ہے۔
امریکی صدر باراک اوباما آئندہ چند ہفتوں میں ایران پر نئی پابندیاں لگائے جانے کے لئے خبردار کر چکے ہیں جبکہ تہران حکومت یورینیئم کی افزودگی روکنے سے انکار اقوام متحدہ کی جانب سے تین مرتبہ پابندیوں کا سامنا کر چکی ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عابد حسین