جوہری ہتھیاروں میں ممکنہ کمی، پاک امریکی اختلاف رائے کی وجہ
2 مارچ 2016پاکستان اور امریکا کے درمیان اس ہفتے کے آغاز پر دو طرفہ اسٹریٹیجک مذاکرات کے چھٹے دور میں شرکت کے لیے پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز ایک وفد کے ہمراہ اس وقت واشنگٹن میں موجود ہیں۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق اس دور میں دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں جوہری سلامتی، اقتصادی، مالیاتی اور توانائی کے شعبوں میں تعاون کے علاوہ تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی، انسداد دہشت گردی اور سلامتی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ تاہم ان مذکرات کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے روس اور امریکا کے جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کی مثال دیتے ہوئے پاکستان سے کہا کہ وہ حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی جوہری پالیسی کا جائزہ لے۔
امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے یہ بات ایک ایسے موقع پر کہی گئی جب رواں ماہ امریکا ہی میں جوہری سلامتی سے متعلق ایک سربراہی کانفرنس بھی منعقد ہونے والی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کی اس تجویز کے جواب میں پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ امریکا کو جنوبی ایشیا میں پاکستان کے سلامتی سے متعلق خدشات کے حوالے سے ’وسیع تر سمجھ بوجھ‘ سے کام لینا ہو گا۔
پاکستانی مشیر خارجہ نے گزشتہ روز واشنگٹن میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی نہیں بلکہ بھارت کے ساتھ اسٹریٹیجک اور روایتی عدم توازن ہے۔
منگل یکم مارچ کے روز امریکا میں ڈیفنس رائٹرز گروپ کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا، ’’میرے خیال میں سب سے بڑا خطرہ بھارت کے ساتھ اسٹریٹیجک اور روایتی (عسکری) عدم توازن ہے۔ دہشت گردی کا مسئلہ اس کے بعد آتا ہے۔‘‘ سرتاج عزیز نے اس امریکی خواہش کو بھی رد کر دیا کہ پاکستان کو اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے میں میں کمی کرنی چاہیے۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا، ’’اگر بھارت ایسا کرتا ہے، تب ہی ہم اس بارے میں سوچیں گے۔ اور اگر بھارت ایسا نہیں کرتا تو ہم یہ پابندی کیسے لگا سکتے ہیں؟‘‘
اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امیتاز گل کا کہنا ہے کہ امریکا جنوبی ایشیائی خطے اور پھر دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے محفوظ بنانا چاہتا ہے تو اسے پاکستان اور بھارت کے درمیان گہرے عدم اعتماد کو بھی کم کرنا ہوگا۔
ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے امتیاز گل نے کہا، ’’پاکستان اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ روایتی ہتھیاروں میں بھارت کا ہم پلہ نہیں ہو سکتا۔ بھارت کے پاس روایتی ہتھیاروں اور فوجی ساز و سامان کے ذخائر پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں۔ اسی لیے پاکستان اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخائر میں اضافے کو اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کے خلاف تحفظ کی ضمانت سمجھتا ہے۔‘‘
امتیاز گل کا کہنا تھا کہ امریکا میں ہونے والی نیوکلئیر سکیورٹی سمٹ میں بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کی ملاقات بھی متوقع ہے اور یہ ایک ایسا موقع ہو گا، جسے دونوں ممالک کے درمیان جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے تخفیف کے لیے مؤثر فورم کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
خیال رہے کہ امریکا اور مغربی ممالک پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ طور پر شدت پسندوں کے ہاتھ لگنے سے متعلق خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں تاہم پاکستان نے ہمیشہ تردید کرتے ہوئے ان خدشات کو بےبنیاد قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستانی جوہری ہتھیار انتہائی محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔