جھوٹے صحافی کورونا سے زیادہ خطرناک ہیں، ایردوآن
21 اپریل 2020صحافیوں کا کہنا ہے کہ متوقع نئی پابندیوں کی لہر کم و بیش ویسی ہی ہو سکتی ہے جیسے تقریباً چار برس قبل ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد آئی تھی۔ اس فوجی بغاوت کے بعد ترک ذرائع ابلاغ کو شدید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور بے شمار صحافیوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا۔
ترک میڈیا کے مطابق پچھلے ہفتے کابینہ کے اجلاس کے بعد ترک صدر ایردوآن نے کہا تھا کہ ملک کو کورونا وائرس کے ساتھ ساتھ سیاسی اور میڈیا کے وائرس سے بھی نجات دلانی ہو گی۔ خیال ہے کہ ان کا اشارہ اپوزیشن اور آزاد پریس کی جانب تھا۔ ایردوآن کا یہ بھی کہنا تھا کہ صحافی وبا کے کنٹرول کی کوششوں میں حکومت کا ساتھ دینے کی بجائے غلط اور غیر مصدقہ اطلاعات پھیلا رہے ہیں جو کہ کورونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔
ترک صدر نے اپوزیشن میڈیا پر الزام لگایا ہے کہ اس نے اپنے ہی ملک کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے اور عام لوگوں کا حوصلہ بڑھانے کی بجائے ان میں مایوسی پھیلا رہا ہے۔ ترکی میں میڈیا تنظیموں کو خدشہ ہے کہ صدر ایردوآن کے بیانات میڈیا پر مزید پابندیوں کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں۔
صحافیوں کے حقوق کی عالی تنظیم رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز کی آزادیِ صحافت کی عالمی درجہ بندی میں ترکی تین درجے بہتر ہو کر ایک سو چونویں پوزیشن پر ہے۔ لیکن مبصرین کے نزدیک اس کی اصل وجہ ترکی میں بہتری نہیں بلکہ بعض دیگر ملکوں میں سینسرشپ میں اضافہ ہے۔
ترکی میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ریپبلیکن پارٹی (CHP) کے سابق رکنِ پارلیمان اور صحافی بارس یارکداس کا کہنا ہے کہ صدر اس بات سے خائف ہیں کہ آزاد صحافی کورونا وائرس سے متعلق حکومتی اقدامات پر سخت سوالات کیوں کرتے ہیں۔ یارکداس کے مطابق ایردوآن ایسے صحافیوں کو وائرس قرار دیتے ہیں، جنہیں ان کے بقول ختم کرنا ضروری ہے۔
ترک وزارتِ صحت کے مطابق ملک میں کووڈ انیس سے متاثر افراد کی تعداد چھیاسی ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ ایسے میں سیاسی و سماجی حلقوں میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ انسداد وائرس کے لیے بنیادی انسانی حقوق پر کس حد تک قدغنیں لگائی جا سکتی ہیں۔
انقرہ حکومت پر آزاد صحافت کے حوالے سے عدم برداشت کا الزام لگتا رہا ہے۔ رواں مہینے کے اوائل میں خود صدر رجب طیب ایردوآن نے فوکس ٹیلی وژن کے ایک پروگرام کے میزبان کے خلاف شکایت درج کرائی۔ گزشتہ ماہ مارچ میں دو صحافیوں کو اناطالیہ صوبے میں وائرس کے حوالے سے خوف و ہراس پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ترک حکام کئی دیگر صحافیوں کے خلاف مختلف نوعیت کے الزامات کی چھان بین کر رہے ہیں۔
ڈینیئل بیلوٹ (ع ح، ش ج)