1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جہادی حملے میں پادری کا قتل: فرانسیسی مسلمان گرجا گھروں میں

مقبول ملک31 جولائی 2016

ایک فرانسیسی کلیسا پر دو جہادی مسلمانوں کے حالیہ حملے میں ایک بزرگ پادری کے سفاکانہ قتل کی مذمت کرتے ہوئے ہزاروں مسلمانوں نے اپنے ہم وطن مسیحیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کلیسائی عبادات میں شرکت کی۔

https://p.dw.com/p/1JZHB
Frankreich Muslimischer Anbeter vor der Saint-Etienne-Kirche
ساں ایتی اَین نامی قصبے میں اس کلیسا کے باہر کھڑا ایک مسلمان اظہار تعزیت کرتا ہوا، جس کی قربان گاہ پر 85 سالہ پادری ژاک ہامل کا گلا کاٹ دیا گیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa/C. Petit Tesson

فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے اتوار اکتیس جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق اس یورپی ملک میں آباد مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کا آج بہت سے کیتھولک گرجا گھروں میں جا کر وہاں اتوار کی صبح ہونے والی اجتماعی عبادات میں شرکت کرنا مسیحی برادری کے ساتھ یکجہتی کا مظہر ایک ایسا عمل تھا، جس کا مقصد یہ ظاہر کرنا بھی تھا کہ عام فرانسیسی مسلمان بھی اس قتل کی اتنی ہی مذمت کرتے ہیں، جتنی کہ دوسرے شہری۔

خبر رساں ادارے اے پی نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے آج کلیساؤں میں دعائیہ اجتماعات میں شرکت صرف فرانس ہی میں نہیں بلکہ دیگر یورپی ملکوں میں بھی کی گئی۔

فرانسیسی نشریاتی اداروں کی طرف سے دکھائی جانے والی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا تھا کہ مثال کے طور پر کس طرح رُوئیں (Rouen) کے شہر میں گوتھک طرز تعمیر والے بہت بڑے اور مرکزی کیتھیڈرل میں اتوار کی اجتماعی عبادت کے دوران درجنوں مسلمان بھی موجود تھے۔

نارمنڈی کے فرانسیسی علاقے میں رُوئیں کا شہر ’ساں ایتی اَین‘ نامی اس قصبے سے محض چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جہاں دو مسلح مسلمان عسکریت پسندوں نے منگل 26 جولائی کے روز ایک کلیسا میں گھس کر وہاں موجود متعدد افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔

یرغمالیوں میں متعدد پادری اور راہبائیں بھی شامل تھے، جن میں سے ایک 85 سالہ پادری ژاک ہامل کا حملہ آوروں میں سے ایک نے کلیسا کی قربان گاہ پر گلا کاٹ دیا تھا۔ بعد ازاں یرغمالیوں کو رہا کرانے کے لیے کی گئی پولیس کی کارروائی میں یہ دونوں حملہ آور بھی مارے گئے تھے۔

فرانس میں، جسے یورپی یونین کے رکن ملکوں میں سے مسلمان دہشت گردوں کے خونریز حملوں کا سب سے زیادہ سامنا ہے، آج ہی کئی دیگر مقامات پر بھی بین المذاہبی اجتماعات منعقد ہوئے۔

Italien Teilnehmer der Muslimischen Gemeinde in der Santa Maria Caravaggio- Kirche
اطالوی شہر میلان کے سانتا ماریا کلیسا میں ایک اجتماعی تعزیتی تقریب میں شریک مسلمان خواتین و حضراتتصویر: picture-alliance/dpa/F. Lo Scalzo
پیرس کے مشہور زمانہ نوٹرے ڈیم کیتھیڈرل میں ہونے والی مختلف مذاہب کے پیروکاروں کی ایک اجتماعی عبادت میں جن مسلمانوں نے شرکت کی، ان میں پیرس کی سب سے بڑی مسجد کے ریکٹر دلیل بوبکر بھی شامل تھے۔

مسلمانوں، مسیحیوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی ایسی مشترکہ کلیسائی دعائیہ تقریبات فرانس کے علاوہ اٹلی میں بھی منعقد کی گئیں۔ اطالوی شہر نیپلز کے ڈومو کیتھیڈرل کے قریب سینٹ جینارو نامی چرچ کی قربان گاہ سے حاضرین سے خطاب کرنے والوں میں عبداللہ کوزولینو بھی شامل تھے۔

عبداللہ کوزولینو اٹلی میں مسلمانون کی مرکزی تنظیم ’اسلامک کنفیڈریشن‘ کے سیکرٹری جنرل ہیں، جنہوں نے حاضرین سے اپنے خطاب میں کہا کہ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ مختلف مذاہب کے مابین مشترکہ اقدار کا زیادہ سے زیادہ عملی مظاہرہ کرتے ہوئے معاشرتی سطح پر یکجہتی اور بھائی چارے کو فروغ دیا جائے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید