جہاں اردو میں رامائن پڑھی جاتی ہے
21 اکتوبر 2017ریاست راجھستان کے شہر بیکانیر میں رامائن اردو میں پڑھی جاتی ہے۔ یہ رامائن مولوی بادشاہ حسین رعنا لکھنوی نے سن 1935ء میں لکھی تھی۔ اس وقت اسے بہت سراہا گيا تھا اور اس وقت کے مقامی راجا نے انہیں انعام و اکرام سے بھی نوازا تھا۔ ریاست کا محکمہ سیاحت اور محفل ادب مشترکہ طور پر ہر برس دیوالی کے موقع پر اس رمائن کو پیش کرنے کے لیے خاص اہتمام کرتے ہیں۔
اس کے مہتم ڈاکٹر ضیاء الحق قادری نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ دیوالی رام چندر کے چودہ برس کے بن باس کی واپسی پر خوشی میں منائی جاتی ہے اور اس اردو رمائن میں انہی مناظر کو پیش کیا گيا ہے، ’’یہ تلسی داس جی کی ’رام چرتر مانس‘ کا اختصار ہے۔ اس میں سیتا کو اغوا کرنے، راون کے ساتھ جنگ اور پھر بن باس کی واپسی تک کے تمام واقعات کا ذکر ہے۔‘‘
معروف ہندی شاعر تلسی داس نے رام چندر کے بن باس، ان کی اہلیہ سیتا کے اغوا اور بعد میں راون کے ساتھ جنگ جیسے تمام واقعات کو رزمیہ شاعری میں پیش کیا ہے۔ یہ رام چرتر مانس یا رامائن کے نام سے معروف ہندی ادب کا شاہکار ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ضیاءالحق قادری نے اردو رامائن کے کچھ اشعار بھی سنائے۔
غم زدہ سیتا گرفتار مصیبت ہوگئی
لو اسیری بھی شریک غربت ہوگئی
رام چندر کی جدائی گو قیامت ہوگئی
قید لنکا اس کی عظمت کی شہادت ہوگئی
بن باس کی واپسی کا منظر کچھ اس طرح بیان کیا گيا ہے۔
الغرض چودہ برس کے بعد سارا قافلہ،
کام سارے کر چکا اور راجدھانی کو چلا
اپنے اپنے فرض کو ہر ایک نے پورا کیا
ہوگیا بن باس کی سب آفتوں کا خاتمہ
راست بازی جاں خوشی کی پھر کہانی بن گئی
پھر اک نئے سرے سے ایودھیا راجدھانی بن گئی
ضیاء الحق قادری کا کہنا تھا کہ دیوالی کے موقع پر اردو رامائن سننے کے لیے شہر کی خواص و عوام جمع ہوتے ہیں، ’’اس میں اردو اور ہندی کے ادیب، شاعر اور سرکردہ شخصیات شرکت کرتی ہیں۔‘‘انہوں نے بتایا کہ اردو رامائن کو اسد علی اسد اپنے خاص انداز میں پڑھنے کے لیے معروف ہیں اور وہی اسے پیش کرتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو نے اسد علی اسد سے پوچھا کہ رامائن کو اردو میں پیش کرنے کا مقصد کیا ہے اور آخر وہ کیوں اس میں اتنی دلچسپی رکھتے ہیں؟ اس کے جواب میں اسد نے یہ شہر پڑھے۔
سانس سانس میں خدا بسا ہے، روم روم میں رام
سیدھے سادے انساں کو جھگڑے سے کیا کام
مندر سے کب مسجد لڑتی، کب گيتا سے قران
لوگ روٹیاں سینک رہے ہیں لےکر ان کا نام
ان کا کہنا تھا کہ بھارت اور پوری دینا میں ہی اس وقت ہر جانب نفرت اور تشدد کا ماحول ہے، ’’ایسے میں پیار و محبت کا پیغام کسی بھی جانب سے آئے تو اس کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔ اس کے اہتمام کا مقصد بس یہی ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ آج بھارت میں اردو رامائن کی اشد ضرورت ہے اس کے پڑھنے سے ہر مذہب اور طبقے کے لوگ ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں، جس سے آپس کے اختلافات اور تفریق باقی نہیں رہتی،’’یہ ہمارے معاشرے میں پیار و محبت اور امن و شانتی کا سبق دیتی ہے۔‘‘