محکمہ سوشل ویلفیئر نے وزیراعلیٰ کی ہدایت پر پنجاب میں دھی رانی پروگرام کے تحت اجتماعی شادیوں کے پورٹل کا بھی آغاز کرتے ہوئے اجتماعی شادیوں کے لیے اب تک 135 درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ محکمہ سوشل ویلفیئر اگلے ماہ نومبر میں 3 ہزار اجتماعی شادیاں کرائے گا، جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے ایک لاکھ روپے سلامی دی جائے گی جبکہ جہیز میں ضروری سامان بھی دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ شادی پر کھانا پینا اور دیگر انتظامات بھی حکومت پنجاب کرے گی۔
مریم نواز صاحبہ کی جانب سے اس پروگرام کی تشہیر ایسے فخر سے کی جا رہی ہے کہ جیسے پاکستان سے سود کے خاتمے کا حل بینکوں کے نام کے ساتھ اسلامی لگا کر بڑے فخر سے کیا گیا۔ چلیے سود تو اسلامی تعلیمات کے خلاف ایک عمل ہے اور اس کے مقابل کچھ نا کچھ کیا تو گیا۔ اہم سوال یہ ہے کہ جہیز کیا ہے؟ کیا کوئی اسلامی رسم؟ شرعی حق وغیرہ وغیرہ؟
کہیں پڑھا تھا کہ "پنجاب اپنی بیٹی بیچتا ہے اور بلوچ اپنا بیٹا "سننے میں یہ انتہائی نامناسب الفاظ ہیں لیکن عملا دیکھا جائے تو بات کچھ مختلف بھی نہیں۔ میرج بیورو سے اس دھندے میں انویسٹمنٹ کا آغاز ہو جاتا ہے۔ پھر بہتر سے بہترین کی دوڑ۔ پنجاب میں جہیز لڑکی والے دیتے ہیں اور جہیز کے سامان کی مالیت سے لڑکی کی سسرال میں عزت کا معیار تعین ہوتا ہے۔ گویا اس سامان سے پہلے لڑکے والے بیچارے کراے کی چیزوں پر گزارا کر رہے ہوں۔ اب بات صرف جہیز کے سامان تک محدود نہیں رہتی، بلکہ رسومات میں لڑکے کی ماں بہنوں کو زیورات تحفے میں دینا، لڑکے کو بھاری بھرکم سلامی اور سونے یا ڈائمنڈ کی انگوٹھی، ممکن ہو تو بعض جگہ فرمائشی پروگرام کے تحت موٹرسائیکل یا گاڑی بھی لی جاتی ہے۔
اب اگر بلوچستان اور کے پی کی جانب رخ کیا جائے تو یہاں کچھ علاقوں میں یہ سب ذمہ داری لڑکے والوں کی ہوتی ہے۔ جہیز کے تمام سامان کا انتظام، شادی بیاہ کی تمام رسومات کا انتظام وغیرہ۔ یہ سب کرنے سے صرف خاندان ہی نہیں بلکہ معاشرے میں ایک نام بنتا ہے۔ بدقسمتی سے معاشرتی اسٹیٹس کا تعین اب ایسے ہی ہوتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رائج جہیز جیسی رسم نے بالکل ایسے جڑیں پکڑیں ہیں جیسے آکاس بیل کسی بھی پودے پر چھا جاتی ہے اور ہمارے معاشرے کے توازن کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے وہ علماء کرام جو سودی نظام ، اسلامی معاشرت کے نفاذ اور توہین مذہب جیسی باتوں پر سڑکیں بند کر دیتے ہیں کیوں آج تک اسلامی معاشرے کے منافی اس رسم کے خلاف جمع نہیں ہوئے؟ کیوں لوگوں کو یہ نہیں بتایا گیا کہ شادی ایک بندھن ہے تجارت نہیں؟ بدقسمتی سے ان منبروں سے صرف ایسی صدائیں بلند ہوئی کہ شادی پر بے دریغ خرچ مت کریں، ناچ گانا گناہ ہے مگر غریب آدمی کی بیٹیاں جہیز نا ہونے پر بن بیاہی گھر بیٹھی رہتی ہیں تب یہ منبر خاموش پی رہتے ہیں ہمیشہ۔
اس سے بڑھ کر منافقت اس ملک میں یہ رہی کہ غریب کی غربت کو اجتماعی شادیوں کے جگمگاتے ٹینٹوں میں نیلام کیا جاتا رہا اور ساتھ ہی ساتھ میڈیا پر اپنی واہ واہ بھی کروائی جاتی رہی کہ کتنا درد دل رکھنے والا انسان یا جماعت ہے۔ تکلیف دہ بات یہ کہ ان اجتماعی شادیوں کا اہتمام بھی اکثر مذہبی جماعتوں کی جانب سے کروایا جاتا رہا ہے۔ 2023 میں کامونکی پنجاب میں المصطفی ٹرسٹ کی جانب سے اجتماعی شادیوں کا انتظام کیا گیا اوع تریسٹھ جوڑوں کی شادی کی گئی۔ اس تقریب میں اس وقت کے نگران وزیر سیاحت وصی شاہ نے بھی بڑے فخر سے غریب کی بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھنے کے لیے شرکت کی تھی۔
اسی طرح اس سال کراچی میں ہندو کونسل نے اجتماعی شادیوں کی تقریب کا اہتمام کرکے تقریبا 122 جوڑوں کو رشتہ ازدواج میں باندھا۔ یہ سلسلہ سالوں سے جاری ہے لیکن عموما اجتماعی شادیوں کی رسومات سندھ اور پنجاب میں منعقد ہوتی ہیں کیونکہ یہاں تمام تر مالی بوجھ لڑکی کے والدین پر ہوتا ہے۔ رہی سہی کسر ٹیلی ویژن پر چلنے والے اشتہارات پوری کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ گدوں کا اشتہار جو کئی سالوں سے اسی پیغام کے ساتھ چل رہا ہے کہ بیٹی کو جہیز میں ہماری برینڈ کا گدا دیں تو وہ خوش رہے گی۔ سونے پر سہاگہ، الیکٹرانکس کی چیزوں پر جہیز کے سیزن میں لگنے والی سیل۔ یہ سب معاشرے میں اس آسیب زدہ رسم کو بڑھاوا دینے کو کافی ہیں۔
بھارت میں جہیز کی روایت صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ قدیم ہندو تہذیب میں جب بیٹی کی شادی ہوتی تھی تو والدین اسے مالی مدد دیتے تھے تاکہ وہ اپنے سسرال میں اپنے لیے ایک مضبوط مقام بنا سکے۔ اس کا مقصد بیٹی کو سسرال میں بہتر زندگی گزارنے کے لیے مدد فراہم ہوتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ، جہیز کی رسم میں تبدیلیاں آتی گئیں اور یہ ایک سماجی دباؤ بن گئی۔ خاص طور پر برصغیر میں، جہیز کی مانگ اور اس کا بوجھ اکثر لڑکی کے والدین کے لیے ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔
آج کے دور میں بھی جہیز ایک متنازع رسم ہے، جسے بعض حلقے ظالمانہ اور غیر منصفانہ سمجھتے ہیں کیونکہ یہ غریب والدین کے لیے مشکل بن چکی ہے۔ پنجاب میں ایک کہاوت ہے کہ ''ماں باپ کا گھر بکے تو بیٹی کا گھر بسے۔‘‘ بس یہ کہاوت والدین کی غفلت زار کی بہترین عکاس ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ایسی رسموں کو حاصل حکومتی سرپرستی بھی حاصل ہے، علماء کی خاموشی اور میڈیا انڈسٹری کی جانب سے اشتہارات اس معاشرتی بگاڑ میں مزید بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں۔