جی ایچ کیو پر حملہ: نظریں جنوبی پنجاب کی طرف اٹھتی ہوئی
12 اکتوبر 2009اگرچہ پاکستانی فوج کی اُس کارروائی کو بڑی حد تک کامیاب قرار دیا جا رہا ہے، جس میں اُنتالیس یرغمالی رہا کروا لئے گئے لیکن انتہائی حساس علاقے میں فوج کے سخت حفاظت والے مرکز تک انتہا پسندوں کی رسائی کے بعد ملک کے اندر اور باہر انتہا پسندوں کی بڑھتی ہوئی قوت کے بارے میں تشویش میں اضافہ ہو گیا ہے۔
کل علی الصبح کی جانے والی کارروائی کے دوران جہاں چار حملہ آور مارے گئے، وہاں تین یرغمالیوں اور دو فوجیوں کو بھی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ حملہ آوروں کے مبینہ سرغنہ کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا۔ سیکیورٹی حلقوں کے مطابق گرفتار کئے گئے اِس انتہا پسند کا نام ڈاکٹر عثمان عقیل ہے، اُسی نے مارچ میں لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر اُس حملے کی منصوبہ بندی کی تھی، جس میں آٹھ افراد مارے گئے تھے اور یہ کہ اُس کا تعلق جنوبی پنجاب کی کالعدم دہشت گرد تنظیم لشکرِ جھنگوی سے ہے۔ یہ گروپ غالباً تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ مل کر سرگرمِ عمل ہے۔
گذشتہ ہفتے جنوبی وزیرستان میں لشکرِ جھنگوی کے ایک قائد کو تحریکِ طالبان کے نئے سربراہ حکیم اللہ محسود کے ہمراہ دیکھا گیا تھا۔ ایک سیکیورٹی اہلکار کے مطابق انتہا پسندوں کی ٹیلی فون کالز سنی گئیں تو وہ پنجابی بول رہے تھے۔ گووزیر داخلہ رحمان ملک کے مطابق ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد اِس واقعے میں ملوث تھے تاہم صوبہء سرحد کے وزیر اطلاعات افتخار حسین نے پنجاب میں دہشت گردوں کے مراکز ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کامیاب ہونے کی صورت میں بھی عسکریت پسندوں کو پنجاب سے مدد ملتی رہے گی۔
ممتاز پاکستانی تجزیہ نگار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے گذشتہ ماہ اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ جنوبی پنجاب جہادی قوتوں کا گڑھ بن چکا ہے لیکن جانے کیوں، پاکستان میں بہت سے حلقے اِس خطرے کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔