جی ٹوئنٹی: چین کی کامیابی لیکن پیچیدہ مسائل حل طلب
6 ستمبر 2016چین دنیا کی بیس بڑی معیشتوں کے اجلاس جی ٹوئنٹی کی کامیابی کا زور شور سے اعلان کر رہا ہے۔ اس اجلاس میں چین اور امریکا نے مشترکہ طور پر پیرس ماحولیاتی معاہدے کی بھی توثیق کی ہے، جسے ضرر رساں گیسوں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے انتہائی اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن اس دوران دنیا کے ان طاقتور ترین لیڈروں نے ان تمام اہم مسائل کو میز کے نیچے ہی رکھا ہے، جن پر کھل کے بات چیت ہونی چاہیے تھی۔ شمالی کوریا کے میزائل تجربات سے لے کر شام میں خانہ جنگی کے مسائل جوں کے توں ہی ہیں۔ امریکا، روس اور دیگر بڑی طاقتیں ان معاملات کے حوالے سے کسی بھی بڑے معاہدے پر پہنچنے میں ناکام رہی ہیں اور بڑی طاقتوں کی طرف سے اپنے اتحادیوں کو تحفظ فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے۔
چینی سرکاری میڈیا کے مطابق یہ اجلاس اس وجہ سے انتہائی کامیاب رہا کیوں کہ دیگر متعدد بڑے سیاسی مسائل کو اس سمٹ پر حاوی نہیں ہونے دیا گیا۔ اسی طرح بحیرہ جنوبی چین کے تنازعے پر بھی کوئی خاص بات نہیں کی گئی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس معاملے میں چین پر کھل کر تنقید کی جانی چاہیے تھی لیکن مغربی دنیا کے لیے چین کے ساتھ اقتصادی روابط زیادہ اہم ہیں۔
تاہم پس پردہ مغربی ممالک کی طرف سے چین پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ مغربی ممالک کے مطابق چین عالمی معیشت میں تیزی لانا چاہتا ہے لیکن خود اپنے ہی قائم کردہ اہداف سے منحرف ہو رہا ہے۔ ایک یورپی عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ چین مغربی سرمایہ کاروں کو اپنی مارکیٹ میں انتہائی محدود رسائی فراہم کر رہا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کے مطابق چینی حکام اپنے ملک میں بیرونی سرمایہ کاروں کے حوالے سے پالسیاں سخت تر بناتے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق ان پالیسوں کا مقصد یہ ہے کہ سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کی جائے یا پھر چین میں ان کی زندگی مشکل بنا دی جائے۔
دوسری جانب چینی پالیسی سازوں کے مطابق سرمایہ کاری کے حوالے سے ان نئی پالیسوں کا مقصد مقامی سرمایہ کاروں اور تاجروں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ معاشی امور کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین خود تو دنیا کی تمام بڑی مارکیٹوں تک رسائی حاصل کر رہا ہے اور اپنا دائرہ مزید وسیع کرنا چاہتا ہے لیکن اپنی مارکیٹ تک بیرونی سرمایہ کاروں کو رسائی فراہم کرنے کی راہ میں رکاوٹیں حائل کر رہا ہے۔
برطانیہ جیسے ملک کی اسٹیل انڈسٹری بحران کا شکار ہو چکی ہے اور اس کا ذمہ دار چین کی سستی برآمدات کو ٹھہرایا جاتا ہے اور یہی اصل مسئلہ بھی ہے۔ برطانوی وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق انہوں نے امریکا کے ساتھ مل کر اس سمٹ کے دوران چین کو یہی پیغام پہنچایا ہے کہ مل کر کام کرنے کی اہمیت کیا ہے اور اضافی پیداوار سے کیسے نمٹنا ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ضروری نہیں کی چین ان دو ممالک کی رائے سے اتفاق کرے۔