جی ٹوئنٹی کے اجلاس کے لیے عالمی رہنما آسٹریلیا میں
15 نومبر 2014یہ عالمی رہنما ان 20 ملکوں کی مجموعی پیداوار کو 2018ء تک دو فیصد تک بڑھانا چاہتے ہیں جو حالیہ پیش گوئیوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ آج ہفتے کو برسبین میں G20 سمٹ میں مشاورت کا موضوع اسی ہدف کے حصول کے لیے حکمت عملی پر غور ہے۔
اس اجلاس میں شرکت کے لیے آسٹریلیا کی ریاست کوئنز لینڈ کے دارالحکومت برسبین میں جمعے کو رات گئے پہنچنے والے آخری عالمی رہنماؤں میں امریکی صدر باراک اوباما، جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور چینی صدر شی جِن پِنگ شامل تھے۔
وہ اس اجلاس میں روس، جاپان، برازیل، انڈونیشیا، برطانیہ، سعودی عرب، ترکی، جنوبی افریقہ اور جی ٹوئنٹی میں شامل دیگر ملکوں کے اپنے ہم منصب رہنماؤں کے ساتھ شرکت کر رہے ہیں۔
یہ عالمی رہنما ریاستی پارلیمنٹ ہاؤس میں ملاقات کر رہے ہیں جبکہ برسبین کے کنوینشن سینٹر میں ہفتے کی سہ پہر اس اجلاس کے آغاز سے قبل رکن ملکوں کے وزرائے خزانہ کا ایک علیحدہ اجلاس بھی شروع ہو چکا ہے۔
امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے یونیورسٹی آف کوئنز لینڈ میں ایک خطاب بھی طے ہے۔ جہاں عالمی رہنما معیشت کو پٹری پر ڈالنے کی اُمیدیں لیے برسبین پہنچے ہیں، وہیں پر ماحولیاتی، روس مخالف اور سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت کرنے والوں نے بھی اس شہر کا رخ کیا ہے۔ یہ مظاہرین کنوینشن سینٹر کے قریب ساؤتھ بینک پر جمع ہیں جبکہ شہر میں بھی ان کی خاصی بڑی تعداد موجود ہے۔
آسٹریلیا نے اس سمٹ کو مدِنظر رکھتے ہوئے سکیورٹی کے غیرمعمولی انتظامات کر رکھے ہیں۔ تقریباﹰ سات ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں جن میں پولیس فورس کے ارکان اور فوجی دونوں شامل ہیں۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق جی ٹوئنٹی کا کہنا ہے کہ اقتصادی شرح نمو کے لیے اس کے ہدف سے عالمی معیشت کو دو ٹریلین ڈالر اور روزگار کے لاکھوں مواقع حاصل ہو سکتے ہیں۔
آسٹریلیا کے فیڈرل ٹریژرر کہلانے والے اعلیٰ ترین مالیاتی عہدیدار جوئے ہاکی نے آج ہفتے کے روز وزرائے خزانہ کے اجلاس سے پہلے ایک بیان میں کہا: ’’ہم نے دو فیصد اقتصادی شرح نمو کا جو ہدف مقرر کیا ہے، اس پر منصوبے کے تحت کام جاری ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’’ہمارے رہنما یہ بات کہہ سکیں گے کہ ہم ایک مستحکم عالمی شرح نمو اور روزگار کے مزید مواقع پیدا کرنے کے ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔‘‘
اس سمٹ سے قبل جی ٹوئنٹی میں شامل ملکوں کے وزرائے خزانہ، مرکزی بینکوں کے صدور اور تاجر رہنما متعدد ملاقاتیں کر چکے ہیں جن میں تجارت، سرمایہ کاری، ٹیکس چوری اور مالیاتی ضوابط کے موضوعات پر غور کیا جاتا رہا ہے۔
خیال رہے کہ عالمی معیشت کے 80 فیصد حصے کی وجہ یہی جی ٹوئنٹی ریاستیں ہیں جبکہ دنیا کی دو تہائی آبادی بھی انہی ملکوں میں رہتی ہے۔