جی ٹوئنٹی گروپ کے سربراہان مملکت و ریاست کا دو روزہ اجلاس
7 جولائی 2017جرمن چانسلر انگیلا میرکل چانسلر شپ کے 12 سالہ دور کے دوران کئی ایسی کانفرنسوں کا تجربہ رکھتی ہیں اور چند بین الاقوامی اجلاسوں کی منتظم بھی رہی ہیں۔ 2007 ء میں بحیرہ بالٹک کے ساحل پر واقع جرمنی کے خوبصورت مقام ہائی لیگن ڈام میں منعقدہ G8 اور 2015 ء میں جرمنی کے جنوبی صوبے میونخ کے ایک تاریخی مقام ایلماؤ میں ہونے والے G7 سربراہی اجلاس کی میزبان انگیلا میرکل ہی تھیں۔ اب جرمنی کے بندرگاہی شہر ہیمبرگ میں جمعہ سات جولائی سے شروع ہونے والے اقتصادی طور پر دنیا کے 20 مضبوط ترین صنعتی ممالک سمیت صنعتی ترقی کی طرف گامزن ریاستوں کے دو روزہ سربراہی اجلاس کا منظر نامہ تاہم کافی مختلف ہے۔ اس بار جی ٹوئنٹی کے اجلاس میں غیر معمولی واقعات کے رونما ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
صرف یہی نہیں اس بار بیس کے اس گروپ کے سربراہی اجلاس کے چند پہلو ایسے ہیں جو اسے ماضی میں ہونے والے دیگر اجلاسوں سے منفرد بناتے ہیں تاہم جرمن چانسلر انگیلا میرکل اس اجلاس کے چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’میرے لیے دہشت گردی، موسمیاتی تبدیلی، تحفظ تجارت اور اس جیسے موضوعات اجلاس کے ایجنڈا کے اہم ترین موضوعات ہیں۔ دنیا اس وقت عدم سکون اور تقسیم کا شکار ہے‘‘۔
تین طاقتور مرد
سب سے زیادہ اختلاف رائے دنیا کے تین طاقتور مردوں کے مابین پائے جانے کے امکانات ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور ترک صدر رجب طیب ایردوان، تینوں ہی ہیمبرگ میں موجود ہیں اور توقع ہے کہ وہ اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کی کوشش کا بھرپور مظاہرہ کریں گے۔ ترک صدر جی ٹوئنٹی اجلاس سے پہلے جرمنی آنا چاہتے تھے اور ہیمبرگ شہر میں آباد ترک برادری سے خطاب کے خواہاں تھے تاہم برلن حکومت نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔
اُدھر امریکی صدر ہیمبرگ اجلاس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے پہلی بار اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن سے براہ راست بات چیت کرنا چاہیں گے۔ ٹرمپ اور پوٹن کی بات چیت کے کئی اہم موضوعات ہوسکتے ہیں۔ یوکرائن کا بحران، شام کی جنگ اور ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی انتخابات پر روس کے میبنہ طور پر اثر انداز ہونے کے الزام میں ماسکو پر لگنے والی پابندیاں۔ ٹرمپ کے قومی سلامتی امور کے مشیر میک ماسٹر کے بقول، ’’امریکی صدر ہیمبرگ آ کر کوشش کریں گے کے وہ روس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے مغربی دنیا کو استعمال کر سکیں۔‘‘
تحفظ ماحول پر تنازعہ
جی ٹوئنٹی سربراہ اجلاس کے دوران جن موضوعات پر بات چیت کی جائے گی ان کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کچھ مختلف ہی موقف رکھتے ہیں۔ وہ عالمی سطح پر اسٹیل کی اضافی پیداوار کی مذمت کرتے ہوئے ہوئے اسے محدود کرنے کی وکالت کریں گے۔ ساتھ ہی تحفظ ماحول کے پیرس معاہدے سے دستبرداری کے ان کے فیصلے میں کسی قسم کی تبدیلی کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔ وہ پہلے ہی فخریہ انداز میں یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکا میں روزگار، امریکی کاروباری اداروں اور آجرین کو تحفظ دینا چاہتے ہیں۔
چانسلر انگیلا میرکل کے بقول، ’’ہیمبرگ میں آسان بات چیت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔‘‘ میرکل ٹرمپ کو تنہا بھی نہیں کرنا چاہتیں۔ وہ واضح کر چکی ہیں، ’’ہم پیرس معاہدے کی تائید کرتے ہیں اور ساتھ ہی ہم اس مسئلے کا ایک مشترکہ حل تلاش کرنے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔‘‘
اقتصادی موضوعات اہم ترین
جی ٹوئٹنی اجلاس کے دوران انسداد دہشت گردی، مہاجرین کے بحران اور تحفظ ماحول کے علاوہ بین الاقوامی اقتصادی تعاون کے موضوع کو بھی مرکزی حیثیت حاصل رہے گی۔ اس سلسلے میں ہیمبرگ میں اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کو ترجیح حاصل رہے گی۔ اسی طرح آزادی تجارت کا موضوع بھی زیر بحث آئے گا۔ میرکل کے بقول، ’’مجھے پورا یقین ہے کہ تحفظ تجارت یا پروٹیکشنزم مسئلے کا حل نہیں کیونکہ اس سے تمام فریق نقصان میں رہیں گے۔ اسی وجہ سے ہمیں آزاد منڈیوں کی ضرورت ہے۔‘‘
دنیا کی نظریں ہیمبمرگ پر
پوری دنیا منتظر رہے گی کہ ان دو دنوں کے دوران ہیمبرگ میں کیا کچھ پیش رفت ہو رہی ہیں۔ اس کے لیے جی ٹوئنٹی سربراہ اجلاس میں 65 ممالک کے تقریباً پانچ ہزار صحافی ہیمبرگ سے تمام تر خبریں اور اطلاعات دنیا بھر میں پہنچائیں گے۔ چانسلر میرکل کے بقول، ’’جی ٹوئنٹی سربراہ اجلاس کے حوالے سے میرا ہدف ہے کہ اس میں شریک تمام سربراہان مملکت وحکومت کی جانب سے ایک ایسے عزم کا اشارہ دیا جائے، جس سے ظاہر ہو کہ ہم دنیا کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ چکے ہیں اور اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘