1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حازم الببلاوی مصر کے نئے وزیراعظم

عابد حسین10 جولائی 2013

اسلام پسند محمد مرسی کی حکومت کے خاتمے کے بعد عبوری صدر عدلی منصور نے نئے وزیر اعظم کے نام کا اعلان کر دیا ہے۔ نیا وزیراعظم گردش میں آئے ہوئے مختلف سیاستدانوں کے ناموں سے قطعاً ایک دوسرا نام ہے۔

https://p.dw.com/p/194ms
تصویر: Reuters

عبوری صدر عدلی منصور نے ماہر اقتصادیات حازم عبدالعزیر الببلاوی کو نیا عبوری وزیراعظم مقرر کیا ہے۔ وہ سن 2011 میں مختصر مدت کے لیے نائب وزیراعظم اور وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ الببلاوی پیرس کی ایک یونیورسٹی سے اقتصادیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہیں۔ عبوری صدر نے ابھی ایک دن قبل نئے پارلیمانی انتخابات کے نظام الاوقات کا اعلان کیا تھا۔ اعلان کے مطابق نئے الیکشن اگلے سال فروری کے وسط میں متوقع ہیں۔ اس سے قبل مرسی حکومت کے دستور میں ضروری ترامیم کی منظوری کے ریفرنڈم کا انعقاد ہو گا۔

Hazem el-Beblawi
حازم الببلاویتصویر: Reuters

عبوری حکومت کے لیے بین الاقوامی سطح پر پذیرائی سامنے آئی ہے۔ نئی عبوری حکومت کو عرب ممالک کے ساتھ خلیجی ریاستوں سے خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی حمایت و تعاون کا یقین دلایا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یہ دونوں ملک خاص طور پر اخوان المسلمون کے بڑھتے اثر سے نالاں تھے۔ ایک ڈیڑھ ہفتہ قبل متحدہ عرب امارات کی ایک عدالت نے دبئی میں 61 انتہا پسندوں کو مختلف المیعاد سزائیں سنائی تھیں۔ امارات کے حکام کا خیال تھا کہ یہ گروہ اخوان المسلمون کی تحریک سے متاثر دکھائی دیتا تھا۔

بین الاقوامی مبصرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے عبوری حکومت کی حمایت و تعاون اصل میں قطر کا کوششوں کا ردِ عمل ہے۔ قطر نے محمد مرسی کی حکومت کے دوران نے مصر کی علیل اقتصادیات کو سہارا دینے کے لیے اور مرسی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کو توانائی بخشنے کی خاطر اربوں ڈالر کی امداد دی تھی۔ قطری حکومت اور مرسی کے قریبی حکومتی رفقا ایک دوسرے کے ممالک کے دورے بھی کرتے رہے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے قاہرہ کے لیے آٹھ ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ بھی سامنے آ یا ہے۔ یہ دونوں ملک اخوان المسلمون کی حکومت کے خاتمے پر قدرے مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔

Proteste Kairo
اخوان المسلمون نے نئے پارلیمانی الیکشن کے نظام الاوقات کو مسترد کر دیا ہےتصویر: MAHMUD HAMS/AFP/Getty Images

مصر کی نئی عبوری حکومت کے لیے جہاں بین الاقوامی سطح پر قدرے راحت میسر ہوئی وہیں اندرون ملک سیاسی عدم استحکام کی شدت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ مصری فوج کی جانب سے تمام سیاسی جماعتوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ امن و سلامتی کو تار تار کرنے کی کوئی کوشش نہ کریں اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے احتجاج اور مظاہرے کرتے رہیں۔ عبوری صدر عدلی منصور نے اسلامی کیلینڈر کے مقدس مہینے رمضان کے شروع ہونے پر تمام سیاسی دھڑوں کو مصالحتی راستہ اپنانے کی تلقین کی ہے۔

مصری نوجوانوں کی سیکولر باغیانہ تحریک تَمَرّد نے تحریر چوک پر لاکھوں مرسی مخالفین کو جمع کیا تھا۔ اس تحریک نے بھی عبوری صدر کے اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تنقید کی ہے۔ تَمَرّد تحریک کے خیال میں عبوری صدر نے اپنے پاس بے پناہ اختیارات جمع کر لیے ہیں جو مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح اس سے قبل جو نام وزیر اعظم کے لیے گردش کر رہے تھے ان پر انتہا پسند مذہبی سیاسی جماعت حزب النور نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سازی کے مذاکرات کو معطل کر دیا تھا۔ اخوان المسلمون نے نئے پارلیمانی الیکشن کے نظام الاوقات کو مسترد کر دیا ہے۔