1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حافظ سعید کی ہلاکت افغانستان میں ’آئی ایس کا خاتمہ نہیں‘ ہے

افسر اعوان / انٹرویو: مسعود سیف اللہ16 اگست 2016

جنوبی ایشیا کے ایک ماہر مائیکل کوگل مین ڈی ڈبلیو کو بتاتے ہیں کہ ایک امریکی ڈرون حملے میں افغانستان اور پاکستان کے لیے آئی ایس کے سربراہ حافظ سعید خان کی ہلاکت سے اس گروپ کی کارروائیاں اس خطے میں زیادہ متاثر نہیں ہوں گی۔

https://p.dw.com/p/1JjFM
تصویر: picture-alliance/dpa/TTP

حافظ سعید خان (تصویر کے درمیان میں) 26 جون کو افغانستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔ اس بات کی تصدیق افغان حکام کی جانب سے 12 اگست کو کی گئی۔ سعید خان خود ساختہ اسلامک اسٹیٹ یا دولت اسلامیہ کے علاقے خُراسان کا سربراہ تھا جس میں یہ گروپ افغانستان اور پاکستان دیگر ملحقہ ممالک کے حصوں کو شامل کرتا ہے۔

علاقائی سربراہ کی ہلاکت اس گروپ کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے جو مشرق وُسطیٰ کے بعد افغانستان اور پاکستان میں اپنی سرگرمیاں بڑھانے کی کوشش میں ہے۔ سابق طالبان جنگجوؤں میں کئی اپنی وفاداریاں اس گروپ کے ساتھ منصوب کر چکے ہیں اور اب دولت اسلامیہ کے پرچم تلے لڑ رہے ہیں۔ افغان سکیورٹی فورسز نے اس علاقے میں کارروائی کا آغاز کر دیا ہے جہاں اس گروپ نے کچھ علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔

افغانستان میں صورتحال آئی ایس کی گہری موجودگی کے لیے زیادہ سازگار نہیں ہے، مائیکل کوگل مین
افغانستان میں صورتحال آئی ایس کی گہری موجودگی کے لیے زیادہ سازگار نہیں ہے، مائیکل کوگل مینتصویر: C. David Owen Hawxhurst / WWICS

واشنگٹن میں قائم ’وُڈ رو وِلسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکالرز‘ میں جنوبی ایشیا کے حوالے سے تجزیہ کار مائیکل کوگل مین نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں افغانستان میں آئی ایس کی توسیع اورحافظ سعید خان کی ہلاکت سے اس گروپ کی کارروائیوں پر اثرات کے حوالے سے بات چیت کی۔

ڈی ڈبلیو: حافظ سعید خان کی ہلاکت افغانستان اور پاکستان میں آئی ایس کے لیے کتنا بڑا نقصان ہے؟

مائیکل کوگل مین: یہ یقیناﹰ ایک بڑا نقصان ہے، مگر کسی بھی طور یہ اس گروپ کو زمین بوس کر دینے والا مُکا نہیں ہے۔ خان کی جگہ کوئی اور لے لے گا اور آئی ایس اپنی موجودگی بڑھاتا رہے گا۔ لہذا آپریشنل نقطہ نظر سے صورتحال تبدیل نہیں ہوئی۔ میرا یہ خیال ضرور ہے کہ اس سے مورال پر فرق ضرور پڑے گا مگر اس علاقے میں آئی ایس کے رہنماؤں کو پہلے بھی ہلاک کیا جا چکا ہے اور امریکا کی فضائی کارروائیوں میں انہیں مؤثر طریقے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ خان کی ہلاکت سے دنیا کے اس حصے میں اس گروپ کو اپنی پائیدار موجودگی بڑھانے کے ہدف کو نقصان ضرور پہنچا ہے۔

ڈی ڈبلیو: آئی ایس نام نہاد ’خراسان‘ کے علاقے میں کس قدر طاقتور ہے، خاص طور پر افغانستان اور پاکستان میں؟

مائیکل کوگل مین: اس کا دار ومدار اس پر ہے کہ آپ ’طاقتور‘ کی کیا تعریف کرتے ہیں۔ اگر اس کے نام یا برانڈ کی ترغیب کے حوالے سے دیکھیں تو یہ کافی مضبوط ہے۔ افغانستان میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ کئی ہزار عسکریت پسند طالبان کو چھوڑ کر اس گروپ میں شمولیت کے خواہاں ہیں۔ آئی ایس کو جو بات دیگر مسلمان شدت پسند گروپوں سے ممتاز کرتی ہے وہ حالیہ برسوں کے دوران اس کی بڑے علاقوں پر قبضہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے علاقے میں اس گروپ کی حالیہ کامیابی یہ ہے کہ یہ افغانستان میں چھوٹے چھوٹے علاقوں پر قبضہ کر سکی ہے اور افغان فورسز، امریکی فضائی طاقت اور خاص طور پر طالبان فورسز نے کامیابی سے آئی ایس کے جنگجوؤں کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔

حافظ سعید خان 26 جون کو افغانستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا
حافظ سعید خان 26 جون کو افغانستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھاتصویر: picture alliance/Pacific Press/A. Ronchini

کیا اندرونی خلفشار کا شکار افغان حکومت آئی ایس کی وجہ سے پیدا شدہ صورتحال سے نبرد آزما ہو سکتی ہے؟

مائیکل کوگل مین: افغانستان میں صورتحال آئی ایس کی گہری موجودگی کے لیے زیادہ سازگار نہیں ہے۔ وہاں یقیناﹰ بد امنی اور لاقانونیت کی خطرناک صورتحال ہے جو آئی ایس کے حق میں جاتی ہے۔ مگر دوسری طرف افغانستان اُس قدر فرقہ واریت کا شکار نہیں ہے جیسا کہ عراق یا شام اور آئی ایس گہری فرقہ واریت کی بنیادوں پر پلی بڑھی ہے۔ اس کے علاوہ طالبان سمیت افغانستان میں موجود زیادہ تر گروپ القاعدہ کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں جو دولت اسلامیہ کی حریف ہے۔ آئی ایس کے برخلاف جو سلفی مسلمانوں کا گروپ ہے افغانستان میں موجود زیادہ تر گروپ دیوبندی نقطہ نظر کے ماننے والے ہیں۔ طالبان افغانستان میں مضبوط ہیں اور یہ دولت اسلامیہ کی کامیابیوں میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔