حال کی بے وطنی میں ماضی ایک سرمایہ کیسے؟
21 نومبر 2015شام سے تعلق رکھنے والی اٹھائیس سالہ سعاد کا گھر شامی شہر حمص میں تھا۔ سعاد کو اپنے گھر کے بارے میں بات کرنا مشکل لگتا ہے۔ موبائل فون میں وہ اپنے گھر کی تصویر دکھاتی ہیں جس میں پہاڑیوں اور سبزے میں گھرا ہوا ایک پیلے رنگ کا گھر دکھائی دے رہا ہے اور اس کے سامنے سعاد کا بھائی دھوپ کا چشمہ پہنے، مسکراتا ہوا کیمرے کی طرف دیکھ رہا ہے۔
وہ حسین اور یادگار دن اب ماضی کا قصہ ہیں۔ سعاد کا گھر بشار الاسد کی فوجوں کی بمباری سے تباہ ہو چکا۔ جرمنی کی جانب مہاجرت اختیار کرنے سے قبل سعاد دو کمروں کے اس فلیٹ میں اپنے خاوند اور بیٹی کے ساتھ رہ رہی تھیں۔ تربیت یافتہ نرس سعاد کہتی ہیں، ’’مجھے معلوم نہیں اب وہاں کیا منظر ہو گا۔‘‘
افغانستان سے تعلق رکھنے والا محمد نامی تارک وطن پچھلے سال لی گئی اپنی ایک تصویر دیکھ رہا ہے جس وہ کابل شہر میں واقع اپنے خوبصورت دفتر میں سوٹ پہنے ہوئے بیٹھا ہے، ’’میں ایک بڑی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی میں کام کرتا تھا، گیارہ لوگ میرے ماتحت کام کر رہے تھے۔‘‘ محمد نے سرد آہ بھرتے ہوئے بتایا۔ لیکن آج وہ پرانی چپل اور جیکٹ پہنے ہوئے ایک جرمن قصبے میں واقع پناہ گزینوں کے کیمپ میں کھڑا یہ تصویر دیکھ رہا ہے۔
چھبیس سالہ محمد طالبان کے خوف کے باعث رواں برس ستمبر کے مہنیے میں اپنے عزیز و اقارب اور وطن کو چھوڑ کا بھاگ نکلا۔ جنوبی جرمنی میں واقع گارمش پارٹن کرشن نامی قصبے میں موجود پناہ گزینوں کا یہ کیمپ ایک پرانے اسپتال کی عمارت میں بنایا گیا ہے۔ یہاں چودہ ممالک سے تعلق رکھنے والے 320 مہاجرین کو رکھا گیا ہے ان میں سے زیادہ تر کا تعلق شام اور افغانستان سے ہے۔
کلثوم کے موبائل فون میں بھی ماضی کی یادیں قید ہیں۔ کالے رنگ کا حجاب اوڑھے اڑتیس سالہ کلثوم نم آنکھوں کے ساتھ اپنی بیٹی کی چوتھی سالگرہ کی تصویریں دیکھ رہی ہے جس میں وہ معصوم بچی سفید کپڑے پہنے سالگرہ کے کیک کے سامنے کھڑی اور بھی معصوم لگ رہی ہے۔
کلثوم نے رواں برس موسم خزاں میں اپنے بھائی اور کزن کے ساتھ ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے بحیرہ روم عبور کرنے کا خطرہ مول لیا۔ پھر کبھی پیدل اور کبھی بس اور ٹرین کے ذریعے سفر کرتے ہوئے وہ بلقان ریاستوں سے ہوتی ہوئی ہنگری اور آسٹریا کے راستے آخر کار جرمنی پہنچی۔ جرمنی پہنچنے کے لیے کلثوم کو چالیس دن تک سفر کرنا پڑا۔ کلثوم کہتی ہے، ’’میں اپنے ساتھ چند کپڑے ہی لا پائی ہوں، یہ تصویر ہماری بیٹھک کی دیوار پر لٹکی تھی۔‘‘
سینتیس سالہ شامی مہاجر سلیم ابھی تک متذبذب ہے کہ اس کا وطن چھوڑنے کا فیصلہ درست تھا یا نہیں۔ وہ فون نکال کر اپنے دو بیٹوں، سلیم اور محمد کی تصویر دیکھ رہا ہے جس میں دنوں بچے اس کے گھر کی بیٹھک میں ایک صوفے کے سامنے کھڑے ہیں۔ سلیم کے بچے ابھی تک شام میں رہ رہے ہیں اور اسے ہر وقت ان کی حفاظت کے بارے میں خدشات رہتے ہیں۔
سلیم کو بچوں سے بچھڑے ہوئے ایک سال سے زیادہ ہو چکا ہے۔ سلیم دھیمے لہجے اور بھری ہوئی آواز کے ساتھ کہتا ہے:’’مجھے ان کی بہت یاد آتی ہے۔ امید ہے کہ وہ خیریت سے ہوں گے۔‘‘
یورپ پہنچنے والے لاکھوں مہاجرین کی کہانیاں بھی کلثوم، سلیم، سعاد اور محمد سے کچھ مختلف نہیں ہیں۔ خانہ جنگی، دہشت گردی اور غربت کے ستائے ہوئے ان تارکین وطن کے پاس ماضی کی خوشگوار یادوں سے تعلق بس موبائل فون میں موجود چند تصویروں کے ذریعے ہی قائم ہے۔