حامد کرزئی ناراض ، دوست پریشان
7 اپریل 2010افغان صدر حامد کرزئی کا سب سے قریبی دوست امریکہ اس صورتحال سے سب سے زیادہ تشویش کا شکار ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ واشنگٹن حکومت افغانستان کے داخلی معاملات میں بہت زیادہ مداخلت کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرامریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مداخلت اسی طرح جاری رہی تو طالبان کی عسکریت پسندی ایک جائز مزاحمتی تحریک میں بدل سکتی ہے۔
امریکی اخبار’ وال اسٹریٹ جنرل‘ کے مطابق حامد کرزئی نے اپنا یہ بیان ایک نجی محفل میں دیا۔ اخبار نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ اس موقع پر 70 کے قریب پارلمیانی اراکین موجود تھے۔ چند پارلمیانی اراکان کا حوالہ دیتے ہوئے وال اسٹریٹ جنرل نے مزید لکھا کہ حامد کرزئی نے دھمکی دی کہ اگر افغان پارلمیان نے ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا تو وہ طالبان کا ساتھ بھی دے سکتے ہیں۔
ساتھ ہی افغان صدرنے قبائلی عمائدین کو یقین بھی دلایا کہ امریکی افواج قندھارمیں ان کی اجازت کے بغیر آپریشن شروع نہیں کرسکتیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگرقبائلی عمائدین نیٹو کی طے شدہ کارروائی سے خوش نہیں ہیں تو اسے ہرحالت میں روکا جائے گا۔
اس وقت حامد کرزئی کے ارادوں سے ان کے مغربی ساتھی پریشان ہیں اور ان کے بیانات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ امریکی صدر کے ترجمان رابرٹ گبس نےصدر کرزئی کو دھمکی آمیز انداز میں کہا کہ اگر ان کا رویہ تبدیل نہ ہوا تو قندھار میں طالبان کے خلاف ممکنہ بڑی کارروائی روکی جاسکتی ہے۔ ساتھ ہی گبس کا کہنا تھا کہ ان بیانات کے باوجود امریکی صدر 12 مئی کو ان سے ملاقات کریں گے۔ وال اسٹیرٹ جنرل کی رپورٹ کے مطابق حامد کرزئی امریکہ کے بجائے اب ایران اور چین سے تعلقات بڑھا رہے ہیں۔
حامد کرزئی کے مطابق وہ صدر باراک اوباما پریہ بات واضح کر چکے ہیں کہ جنگ کی وجہ سے وہ افغان قوم کو متحد نہیں کر پا رہے ہیں اورایسا گزشتہ آٹھ سالوں سے ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا وہ پرامن افغانستان چاہتے ہیں۔ افغان صدر نے اپنے مغربی حلیفوں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ افغانستان میں کمزرو پارلمیان اورصدر چاہتے ہیں۔ واشنگٹن حکام نے صدر کرزئی سے ان کے بیان پر وضاخت طلب کی ہے۔ کرزئی کا کہنا ہے انتخابات کی نگرانی والے اقوام متحدہ کے کمیشن کے اختیارات کو کم کرنا ضروری ہے۔
رپورٹ : عدنان اسحاق
ادارت : افسر اعوان