حراستی مراکز کی کمی ملک بدریوں میں بڑی رکاوٹ ہے، جرمن پولیس
25 دسمبر 2019وفاقی جرمن پولیس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ پناہ کے مسترد درخواست گزاروں اور جرمنی میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو ملک بدر کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
وفاقی جرمن پولیس کے سربراہ ڈیئٹر رومان کے مطابق ملک میں حراستی مراکز کا فقدان غیر ملکیوں کی ملک بدری یقینی بنانے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ جرمنی کے فُنکے میڈیا گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ملک میں حراستی مراکز کی تعداد بہت ہی کم ہے۔‘‘
جرمن صوبے باویریا کا اپنی سرحدی پولیس کے قیام کا فیصلہ
ڈیئٹر رومان کے مطابق اس وقت جرمنی میں دو لاکھ 48 ہزار غیر ملکی ایسے ہیں، جنہیں لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے جب کہ ملک بھر میں صرف 577 حراستی مراکز ایسے ہیں، جہاں ملک بدری سے قبل ان غیر ملکیوں کو حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔
تاہم ان قریب ڈھائی لاکھ غیر ملکیوں میں سے ایک لاکھ 19 ہزار افراد ایسے بھی ہیں، جن کی ملک بدریوں پر عارضی پابندی عائد ہے۔ صوبائی حکام کے مطابق ایسے افراد کو ملک بدر نہیں کیا جا سکتا۔
جرمنی سے رواں برس کے آغاز سے لے کر اکتوبر کے آخر تک 20996 افراد کو ملک بدر کیا گیا۔ یہ تعداد گزشتہ برس کے اسی دورانیے کے مقابلے میں ایک ہزار کم ہے۔
پناہ کے مسترد درخواست گزروں اور غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو ملک بدر کرنا جرمن ریاستوں کی ذمہ داری ہے۔ تاہم ایسے افراد کو کسی تیسرے ملک بھیجنے کے لیے طیارے پر سوار کرانے کے خاطر وفاقی جرمن پولیس ان کے ساتھ جاتی ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران جرمنی میں پناہ کے نئے درخواست گزروں کی تعداد کم ہوئی ہے۔ رواں برس جرمن حکام کو قریب 33 ہزار اور سن 2018 میں ساڑھے 38 ہزار پناہ کی نئی درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔
تاہم جرمنی اب بھی یونین کے دیگر ارکان کی نسبت پناہ گزینوں کی پسندیدہ منزل ہے۔ یورو اسٹیٹ کے مطابق یونین بھر میں بھی اس برس نئے پناہ گزینوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ رہی، جو گزشتہ برس کے مقابلے میں بارہ فیصد کم ہے۔
ج ا/ش ح (ڈی پی اے، اے ایف پی)