دیکھا جائے تو نزاکت سے منسلک خوبیاں یعنی کہ دھیمہ لہجہ، گفتگو میں ٹھہراؤ اور نرم مزاجی جیسی خصوصیات مردوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ دوسری طرف لہجے کا کرخت پن اور غصے جیسی خصوصیات عورتوں میں بھی ہوتی ہیں۔
لیکن یہ پاکستانی معاشرے کے دوہرے معیارات ہیں کہ مردوں کی حامل خصوصیات والی عورتوں کو مردانگی کا لقب دے کر ان کی واہ واہ کی جاتی ہے اور معاشرے میں یہ لقب ایک فخر سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ عورتوں سے منسلک خصوصیات اگر مردوں میں پائی جائیں تو انہیں زنانہ یا پھر تیسری جنس کے القابات سے نوازا جاتا ہے، جنہیں عمومی طور پر معاشرے میں گالی تصور کیا جاتا ہے۔
زی ٹی وی کی ویب سیریز 'مسز اینڈ مسٹر شمیم‘ میں نعمان اعجاز نے شمیم کا کردار ادا کیا ہے۔ شمیم کا کردار نا صرف مزاج میں حساس اور دوسری عورتوں سے منسلک خصوصیات کا حامل ہے بلکہ اس کے برتاؤ اور چال ڈھال میں بھی نزاکت ہے۔ اس کے دل میں نرم گوشہ ہے۔ اس کا لہجہ اور مزاج دھیمہ ہے اور وہ گفتگو میں بھی نرم گو ہے۔ اس کردار کی خصوصیات کی بنا پر شمیم کو شمو بھی کہا جاتا ہے، جو عام طور پر لڑکیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
عورتوں کی خصوصیات ہونے پر شمیم کو زندگی کے ہر قدم پر نا صرف تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ بارہا بے عزتی بھی برداشت کرنی پڑتی ہے اور یہ طعنہ بھی دیا جاتا ہے کہ شمیم کو مرد کون سمجھتا ہے؟
شمیم کے کردار کے برعکس اس ویب سیریز میں ایسے مردانہ کردار بھی ہیں، جن میں خصوصی طور پر مردوں سے منسلک خصوصیات کو نمایاں کیا گیا ہے۔ جیسا کہ تشدد، بے وفائی اور عورتوں کو حقیر سمجھنا۔ ان میں سے ایک کردار خرم ہے، جو ثاقب سمیر نے ادا کیا ہے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ عورتوں سے منسلک خصوصیات والے مرد کو زنانہ کہنا ایک گالی کیوں تصور کیا جاتا ہے؟
کیا یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ معاشرے میں صرف لفظ زنانہ ہی نہیں بلکہ عورت کا وجود ہی شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا ہے؟ ٹیکنالوجی اور جدید دریافتوں کے دور میں آج بھی کئی گھرانوں میں لڑکیوں کی پیدائش پر خاموشی جبکہ لڑکوں کی پیدائش پر جشن منایا جاتا ہے اور بچے کی جنس فیمیل ہونے پر عورت کو ہی قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے۔
لڑکیوں کو ہر قدم پر احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ کمزور، بے وقوف اور زمانے کی اونچ نیچ کو نا سمجھنے والی مخلوق ہیں۔ انہیں بارہا یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ دنیا کے پیچیدہ مسائل کے بارے میں سوچنا ان کا کام نہیں ہے اور نا ہی ان کی عقل میں اتنی وسعت ہے کہ وہ یہ کام کر سکیں۔
معاشرہ یہ بات باور کراتا ہے کہ مندرجہ بالا سب کام مردوں کے ہیں اور مردوں کی وسیع عقل ہی ان کاموں کو بہتر طور پر سر انجام دے سکتی ہے۔
دوسری طرف لڑکوں کی پرورش سے لے کر بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھنے تک مردوں کو یہ بات باور کرائی جاتی ہے کہ مرد بنو۔ مرد کمزور نہیں ہوتےاور نا ہی وہ روتے ہیں۔ کمزور ہونا عورت کی نشانی ہے۔ اور اس سے ملتی جلتی بیش بہا نصیحتیں مردوں کو کی جاتی ہیں، جس وقت وہ جذباتی طور پر پریشانی کا شکار ہوتے ہیں۔
شمیم کے کردار کو بھی اس کی ماں بے جی نے اسی قسم کی نصیحتیں کیں، جب وہ پریشانی کا شکار تھا۔ حالانکہ انسان ہونے کے ناطے مرد ہو یا عورت یا پھر خواجہ سرا جذباتی طور پر کمزور ہونا ایک فطری عمل ہے۔
شمیم کو ایک حساس، نرم مزاج، تحمل اور برداشت جیسی خصوصیات کا حامل کردار دکھایا گیا ہے، جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اس کے دل میں انسانیت کے لیے رحم دلی اور نرم گوشہ ہے۔ ایسی خصوصیات کے حامل مردوں کی چال ڈھال میں نزاکت کے عنصر پر زنانہ کہنا یا تیسری جنس کے القابات سے نوازنا ناانصافی ہے۔
میں اس بات سے صد فیصد متفق ہوں کہ خدا نے دنیا میں ایک سے زیادہ جنس بنائی ہیں اور ان میں سے ہر ایک علیحدہ خصوصیات کی حامل ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ شاذو نادر عورتوں سے منسلک خصوصیات اگر مردوں میں پائی جاتی ہیں تو عورت کو ہی گالی کیوں دی جاتی ہے؟
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔