حلب کے بعد ادلب شامی فوجی آپریشن کا اگلا نشانہ ہو سکتا ہے
18 دسمبر 2016تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شام کے صدر بشار الاسد کی فوج حلب شہر کے تمام علاقے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اس شہر کے ہمسائے میں ادلب کی جانب بڑھ سکتی ہے۔ ادلب کو بھی شامی باغیوں کا بڑا اور مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ ادلب کے انتظامی علاقے سے باغیوں کو پسپا کرنے کے لیے امکاناً حلب سے زیادہ بمباری کی جا سکتی ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ادلب کے بجائے شامی فوج حلب نامی صوبے کے مغربی علاقے کا رخ بھی کر سکتی ہے، جو القاعدہ کے حامی باغیوں کا انتہائی مضبوط علاقہ ہے۔ اب اس میں حلب سے پسپائی اختیار کرنے والے باغی بھی پہنچ گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر اس علاقے پر بمباری شروع کی جاتی ہے تو بے شمار انسانی جانوں کا ضیاع ہو گا اور لڑائی کی صورت میں یہ حلب شہر سے بڑے خونی مقتل کا منظر پیش کر سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حلب صوبے کے مغربی علاقے کی جگہ ادلب پر حملے کا امکان زیادہ ہے۔ اس تناظر میں ایک مرتبہ صدر بشار الاسد نے روسی رپورٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ حلب شہر پر قبضہ مکمل کرنے کے بعد ادلب کی جانب بڑھنا زیادہ اہم ہے۔ اسد نے یہ بھی کہا کہ حلب کے بعد ادلب کو ٹارگٹ کرنا اِس لیے بھی ضروری ہے کہ وہاں دہشت گردوں نے مضبوط ٹھکانے بنا رکھے ہیں اور ان کے سپلائی روٹ بھی مناسب ہیں۔
اسد کا خیال ہے کہ ادلب کے باغیوں کے حلب کے قریبی دیہات میں موجود القاعدہ کے حامی جنگجووں سے گہرے روابط ہیں۔ اسد کی مراد تحلیل کر دیے جانے والے باغی گروپ النصرہ فرنٹ اور موجودہ باغی گروپوں کے اتحاد فتح الشام ہے۔ اسد نے یہ بھی واضح کر رکھا ہے کہ حلب کے بعد فوج کی اگلی منزل روس اور ایرانی حلیفوں کے ساتھ مشاورت سے طے کی جائے گی۔
ادلب شہر سے ترک سرحد کی جانب براہ راست زمینی شاہراہ موجود ہے اور شامی سکیورٹی حلقے اِس روٹ کو دہشت گردوں کا اہم سپلائی روٹ اور ذریعہ برائے نقل وحمل سمجھتے ہیں۔ ادلب کا شہر اور انتظامی صوبہ حما شہر سے محض چند کلومیٹر کی مسافت ہے۔ ادلب کی اہمیت اِس لیے بھی ہے کہ اس پر کنٹرول حاصل ہونے سے روسی فوجی بیس مزید محفوظ ہو جائے گا اور بشار الاسد کا ساحلی عسکری گڑھ بھی باغیوں کی پہنچ سے باہر ہو جائے گا۔