حماس رہنما کے قتل میں پاسپورٹس کے ناجائز استعمال کا تنازعہ
28 فروری 2010برطانوی پولیس اہلکار بھی معاملے کی چھان بین کے لئے تل ابیب میں موجود ہیں جبکہ دبئی پولیس نے محمود المبوح کے قتل کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر موساد پر انگلی اٹھائی ہے۔
تل ابیب میں برطانوی سفارت خانے کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ لندن سے پولیس اہلکار چند روز قبل اسرائیل پہنچے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکار اسرائیل میں موجود اپنے ان شہریوں سے ملاقات کریں گے، جن کی شناخت چُرا کر محمود المبوح کے قتل کے منصوبے میں استعمال کی گئی۔
برطانیہ کی ’سیریئس آرگنائزڈ کرائم ایجنسی‘ کا کہنا ہے کہ ان برطانوی شہریوں کے پاس دراصل دہری شہریت ہے، وہ اسرائیل میں رہائش پذیر ہیں اور ان کے برطانوی پاسپورٹس قتل کی واردات میں استعمال کئے گئے۔
اسرائیل کے مشتبہ ایجنٹوں کی جانب سے ایسی واردات کے لئے شناخت چرانے کے معاملے پر ایک سفارتی بحث چھڑی ہوئی ہے۔ تنازعے کو سلجھانے کے لئے اسرائیل پر دباؤ ہے جبکہ آسٹریلوی وزیر اعظم کیون رڈ بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت اس معاملے پر خاموش نہیں بیٹھے گی۔
ہفتہ کو ایک اور بیان میں آسٹریلیا کے وزیر اعظم نے کہا کہ اپنے پاسپورٹ سسٹم کے دفاع کے لئے ان کی حکومت کا موقف انتہائی سخت ہے اور مشتبہ موساد ایجنٹوں کی جانب سے آسٹریلوی شہریوں کی شناخت چرانے کے الزامات پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی لئے اسرائیلی سفیر کو وزارت خارجہ میں وضاحت کے لئے طلب کیا گیا۔ تاہم کیون رَڈ نے یہ بھی کہا کہ کینبرا حکومت ان کی وضاحت سے مطمئن نہیں۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ بھی اسرائیلی حکام پر زور دے چکے ہیں کہ وہ حماس رہنما کے قتل میں پاسپورٹس کے ناجائز استعمال پر جاری عالمی تفتیش میں تعاون کریں۔
دبئی پولیس کے مطابق المبوح کے قتل کی واردات میں برطانیہ کے 12، آئرلینڈ کے چھ، فرانس کے چار، آسٹریلیا کے تین اور جرمنی کا ایک پاسپورٹ استعمال کیا گیا۔
دبئی پولیس کے سربراہ داہی خلفان نے ہفتہ کو دعویٰ کیا کہ المبوح کے بیشتر مشتبہ قاتل اسرائیل میں ہیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر حماس کے رہنما کے قتل کی ذمہ داری اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد پر ڈالی۔ خلفان کا کہنا ہے کہ المبوح کے قتل میں موساد کا ملوث ہونا ثابت ہو گیا تو اس کے سربراہ کے ساتھ ساتھ اسرائیلی وزیر اعظم کا نام بھی گرفتاری کے بین الاقوامی وارنٹ میں شامل کیا جائے گا۔
دبئی پولیس قتل کی اس واردات کے حوالے سے 26 مشتبہ افراد کی تصاویر اور ان کے پاسپورٹس کی تفصیلات جاری کر چکی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کم از کم ایک قاتل کا DNA بھی ثبوت کے طور پر موجود ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی حکام کہہ چکے ہیں کہ اس معاملے میں ان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ محمود المبوح کو 20 جنوری کو دبئی کے ہوٹل میں قتل کیا گیا۔
رپورٹ: ندیم گِل /خبررساں ادارے
ادارت: افسر اعوان