حماس کیا ہے اور اس کے حامی کون ہیں؟
15 مئی 2021جرمن میڈیا ماضی میں حماس کو 'شدت پسند اسلامی تنظیم‘ قرار دیتا تھا لیکن اسرائیل اور فلسطین کے مابین جاری موجودہ تنازعے میں مغربی میڈیا اس تنظیم کو 'دہشت گرد‘ لکھا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپی یونین، زیادہ تر مغربی ممالک اور امریکا حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔
مغربی ممالک میں سے صرف ناروے اور سوئٹزرلینڈ ہی ایسے ممالک ہیں، جنہوں نے اب تک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار نہیں دیا اور سخت غیر جانبدار پالیسی اختیار کرتے ہوئے حماس کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی قائم کر رکھے ہیں۔
حماس کی مختصر تاریخ
حماس کا وجود سن 1980 کی دہائی میں عمل میں آیا تھا۔ اس وقت حماس یاسر عرفات کی قیادت میں فلسطینی جماعتوں کے اتحاد 'تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کی مخالفت میں وجود میں آئی تھی۔
حماس کے قیام کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابتدائی دنوں میں اسرائیلی حکومت نے اسے مالی معاونت فراہم کی تھی تاکہ یاسر عرفات اور پی ایل او کا زور توڑا جا سکے۔ تاہم حماس اور اسرائیل دونوں ہی ایسے دعووں کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔
پی ایل او کے برعکس حماس اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی۔ تنظیم کے ایمبلم (علامت) میں یروشلم کے قبة الصخرہ کا سنہری گنبد بھی شامل ہے اور اس پر موجود نقشے میں اسرائیل، غزہ اور ویسٹ بینک سمیت تمام علاقوں کو فلسطینی ریاست کے طور پر بھی دکھایا گیا ہے۔
یاسر عرفات نے سن 1993 میں اوسلو معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ قیام امن کا اعلان کیا، جس کے بعد سن 1987 میں شروع ہونے والے پہلے انتفادہ کا اختتام ہوا۔ حماس نے امن عمل تسلیم کرنے سے انکار کیا اور اسرائیل کے خلاف عسکری کارروائیاں جاری رکھیں۔
سن 2006 کے عام انتخابات میں حماس نے غزہ پٹی میں اکثریت حاصل کی اور بعد ازاں 2007 میں فتح اور حماس کے مابین پرتشدد جھڑپوں کے نتیجے میں غزہ پٹی پر قبضہ کر لیا۔ تب سے مغربی کنارے پر محمود عباس کی قیادت میں فتح پارٹی کا کنٹرول ہے اور غزہ بدستور حماس کے کنٹرول میں ہے۔
حماس نے غزہ پٹی سے اسرائیل کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھی ہوئی ہے اور وہ اسے 'اپنا دفاع‘ قرار دیتی ہے۔ اس تنظیم اور اسرائیل کے مابین سن 2008، 2012 اور 2014 میں شدید جھڑپیں ہوئیں۔
غزہ پٹی میں کیا صورت حال ہے؟
غزہ پٹی کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد علاقوں میں ہوتا ہے۔ مصر، اسرائیل اور ساحلی علاقوں کی سخت ترین نگرانی کے باعث غزہ پٹی کا دنیا سے رابطہ بالکل منقطع ہے۔ زبوں حال معیشت کے باعث غزہ پٹی کے زیادہ تر رہائشی غربت کا شکار ہیں اور ان کا گزر بسر غیر ملکی امداد پر ہے۔
حماس نے رہائشی عمارتوں میں اپنی پوسٹیں بنا رکھی ہیں، جہاں سے وہ اکثر اسرائیل پر راکٹ حملے کرتی ہے، جسے مقامی آبادی کو 'انسانی ڈھال‘ کے طور پر استعمال کرنے کے مترادف قرار دیا جاتا ہے۔
علاوہ ازیں حماس نے مصر کے ساتھ متصل سرحد پر غزہ پٹی میں اسلحہ سمگل کرنے کے لیے کئی خفیہ سرنگیں بھی کھود رکھی ہیں۔ تاہم مصری حکومت بھی حماس کی سرگرمیاں روکنے کے لیے کافی متحرک ہے۔
حماس کا حامی کون کون ہے؟
قطر حماس کا سب سے اہم اتحادی اور اسے سب سے زیادہ مالی معاونت فراہم کرنے والا ملک ہے۔ قطری امیر شیخ حماد بن خلیفہ الثانی سن 2012 میں حماس حکومت سے ملاقات کرنے والے پہلے غیر ملکی سربراہ تھے۔ اب تک قطر حماس کو 1.8 بلین امریکی ڈالر کے مساوی مالی امداد فراہم کر چکا ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کو امید ہے کہ قطر بھی جلد ہی کئی دیگر عرب ممالک کی طرح امریکی ثالثی میں طے پانے والے 'معاہدہ ابراہیمی‘ پر عمل کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کر لے گا۔
حماس کو ترکی کی حمایت بھی حاصل ہے۔ حماس کی جانب سے اسرائیل پر راکٹ حملوں سے کچھ پہلے ہونے والے مذاکرات میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کی سیاسی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
اس کے علاوہ حماس کو کئی غیر ریاستی اداروں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ جرمن جریدے 'ڈیئر اشپیگل‘ کے مطابق حالیہ برسوں میں جرمنی میں موجود کئی تنظیموں کی جانب سے بھی حماس کو مالی امداد کی فراہمی میں اضافہ ہوا ہے۔
حماس کو راکٹ کہاں سے ملتے ہیں؟
گزشتہ دنوں کے دوران غزہ پٹی سے اسرائیل کی جانب داغے گئے راکٹوں کی تعداد غیر معمولی رہی۔ رواں ہفتے منگل کے روز حماس نے بتایا کہ اس تنظیم نے محض چند منٹوں میں اسرائیل پر 130 راکٹ داغے۔ اسرائیلی ایئر ڈیفنس سسٹم آئرن ڈوم نے ان میں سے زیادہ تر کو ناکارہ بنا دیا۔ تاہم اس دفاعی نظام پر آنے والا خرچہ حماس کے راکٹوں سے کہیں زیادہ ہے۔
اسرائیلی فوج کے مطابق جمعے کے روز غزہ پٹی سے اسرائیل کی جانب 1800 سے بھی زیادہ راکٹ فائر کیے گئے۔
حماس کئی برسوں سے ایران کے فراہم کردہ راکٹوں پر انحصار کرتی رہی ہے۔ تاہم مشرق وسطیٰ میں میزائل ٹیکنالوجی سے متعلق امور کے ماہر فابیان ہنز نے جرمن عوامی نشریاتی ادارے زیڈ ڈی ایف کو بتایا کہ غزہ میں سرگرم عسکری گروپوں نے اپنے پاس موجود راکٹوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ کیا ہے، جس کی تصدیق اسرائیلی میڈیا نے بھی کی ہے۔
رواں ہفتے یروشلم پوسٹ نے اسرائیلی خفیہ اداروں کے حوالے سے لکھا کہ حماس کے پاس پانچ سے چھ ہزار راکٹ ہیں۔ اسلامک جہاد نامی گروپ، جو حماس کے تعاون سے سرگرم ہے، کے پاس بھی قریب آٹھ ہزار راکٹس ہیں۔
ہنز کے مطابق غزہ میں ایرانی راکٹس سوڈان اور مصر کے ذریعے سمگل کیے جاتے تھے۔ تاہم سن 2019 میں سوڈان سے عمر البشیر کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ کام مشکل ہو چکا ہے۔ کہا جاتا ہے حماس اب بیرونی تعاون کے ساتھ اپنے زیادہ تر میزائل غزہ پٹی ہی میں بنا رہی ہے۔
ڈیوڈ ایل (ش ح/ ا ا)