کابل ہوٹل پر حملہ، ہلاکتوں کی تعداد 22 تک پہنچ گئی
22 جنوری 2018خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق افغان حکام نے کہا ہےکہ وہ اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ حملہ آور ہفتہ 20 جنوری کی شب کس طرح اس ہوٹل کی سکیورٹی کو توڑنے میں کامیاب ہوئے۔ ہوٹل کی سکیورٹی تین ہفتے قبل ہی ایک پرائیویٹ کمپنی نے سنبھالی تھی۔
طالبان حملہ آوروں کا یہ حملہ 12 گھنٹے سے بھی زائد وقت کے بعد اُس وقت ختم ہوا جب افغان سکیورٹی فورسز نے ناروے کے فوجیوں کی مدد سے تمام چھ حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا۔ اس دوران حملہ آوروں نے اس چھ منزلہ ہوٹل میں مختلف جگہوں پر آگ بھی لگا دی جبکہ بے دریغ گولیاں چلائیں۔
افغان وزارت صحت کے ترجمان وحید مجروح کے مطابق اب تک 22 لاشیں کابل کے مختلف ہسپتالوں میں لائی جا چکی ہیں۔ مجروح کے مطابق، ’’بعض لاشیں اس بُری طرح سے جل چکی ہیں کہ ان کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کی ضرورت ہو گی۔‘‘
یوکرائن کی وزارت خارجہ کی طرف سے اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں چھ یوکرائنی شہری بھی شامل ہیں۔ قبل ازیں افغان حکام کی طرف سے ہلاکتوں کی کُل تعداد 18 بتائی گئی تھی جن میں سے 14 غیر ملکی بتائے گئے تھے۔ اے ایف پی کے مطابق افغان حکام کی طرف سے عام طور پر ہائی پروفائل حملوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد اصل سے کم ہی بتائی جاتی ہے۔
ہوٹل کے ایک ملازم نے اے ایف پی کو بتایا کہ اُس نے حملہ شروع ہونے سے قبل ’فیشن ایبل لباس زیب تن کیے‘‘ دو مسلح افراد کو ہوٹل کے ریسٹورینٹ میں دیکھا تھا۔ حملے کے دوران زخمی ہونے والے اس 20 سالہ ہوٹل ملازم حسیب اللہ کے مطابق، ’’اُس وقت قریب ساڑھے آٹھ بجے تھے جب ہوٹل کے ایک کونے میں بیٹھے ان افراد نے اچانک اٹھ کر گولیاں برسانا شروع کر دیں۔‘‘
حسیب اللہ کے مطابق اُس نے پانچویں منزل کے ایک کمرے میں خود کو بند کر کے اپنی جان بچائی۔ اس نے اے ایف پی کے بتایا کہ حملہ آور ایک ایک کمرے میں جا کر دروازے توڑ کر لوگوں کو فائرنگ کا نشانہ بنا رہے تھے اور ہو خاص طور پر غیر ملکیوں کو تلاش کر رہے تھے۔
اتوار 21 جنوری کو افغان وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے بھی یہی خدشہ ظاہر کیا تھا کہ کچھ حملہ آور پہلے سے ہی ہوٹل کی عمارت میں موجود تھے۔ حملہ آور خودکش جیکٹوں، پستولوں، ہینڈ گرینیڈوں اور کلاشنکوفوں سے مسلح تھے۔